لاہور: پاکستان سے ایک چونکانے والی خبر سامنے آئی ہے، جس کے بعد پورے ملک میں ہڑکمپ مچ گیا ہے۔پاکستان کی تقریباً 629 لڑکیوں اور خواتین کو دلہن کے طور پر چین کے مردوں کو فروخت کیا گیا جو انہیں چین لے گئے،ملک کے غریب اور کمزور لوگوں کا استحصال کرنے والے انسانی اسمگلروں کے نیٹ ورک کو پکڑنے کا عزم لینے والے پاکستانی تفتیش کاروں نے یہ فہرست تیار کی ہے۔یہ فہرست 2018 سے انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورک میں پھنسی خواتین کی سب سے زیادہ درست تعداد دستیاب کراتی ہے۔لیکن جون میں یہ فہرست سامنے آنے کے بعد سے نیٹ ورک کے خلاف تفتیش کاروں کی جارحانہ مہم کی رفتار اچانک تھم سی گئی۔
عدالت نے اسمگلنگ کے سلسلے میں چین کے 31 شہریوں کو کیا تھا بری
انکوائری کی معلومات رکھنے والے حکام کا کہنا ہے کہ ایسا سرکاری حکام کے دبا ؤ کی وجہ سے ہوا ہے جو چین سے پاکستان کے فائدہ مند تعلقات کو نقصان پہنچنے سے ڈرتے ہیں۔انسانی اسمگلروں کے خلاف سب سے بڑا معاملہ بند ہو گیا۔ اکتوبر میں، فیصل آباد کی عدالت نے اسمگلنگ کے سلسلے میں چین کے 31 شہریوں کو بری کر دیا تھا۔عدالت کے ایک افسر اور کیس کی معلومات رکھنے والے پولیس تفتیش کاروں کے مطابق پولیس کی جانب سے کی گئی ابتدائی تحقیقات میں بہت سی خواتین نے گواہی دینے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ یا تو وہ ڈری ہوئیں تھی یا انہیں خاموش رہنے کے لئے پیسہ دیا گیا تھا ۔ان دونوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ معلومات دی۔
حکومت نے کی تحقیقات بند کرانے کی کوشش
ایک عیسائی کارکن سلیم اقبال نے کہا کہ اسی وقت، حکومت نے تحقیقات بند کرنے کی کوشش کی، نیٹ ورکس کی تحقیقات کر رہے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے حکام پر شدید دبا ؤڈالنے کی کوشش کی۔اقبال نے چین سے لڑکیوں کو چھڑانے اور دیگر کو چین بھیجے جانے سے بچانے کے لئے بہت سے رشتہ داروں کی مدد کی ہے۔اس سلسلے میں ہونے والے واقعات کی معلومات رکھنے والے کئی سینئر حکام نے کہا کہ انسانی اسمگلنگ کی تحقیقات سست ہو گئی، تفتیش کارمایوس ہیں اور پاکستانی میڈیا پر اس معاملے میں رپورٹنگ بند کرنے کا دباؤ ڈالا گیا۔