انٹرنیشنل ڈیسک: افریقہ کے شورش زدہ ساحلی علاقے میں واقع برکینا فاسو ایک بار پھر جہادیوں کے تشدد کا نشانہ بن گیا۔ اتوار کو علی الصبح شمالی علاقے میں مربوط دہشت گردانہ حملوں میں 100 سے زائد افراد مارے گئے، جن میں زیادہ تر فوجی تھے۔ یہ حملہ ملک کے جیبو شہر اور اس سے ملحقہ فوجی اڈوں کو نشانہ بناتے ہوئے کیا گیا۔
مقامی رہائشیوں، طلبا ء اور امدادی تنظیموں نے تصدیق کی کہ حملے سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ زیادہ تر عینی شاہدین اور متاثرین نے سیکورٹی وجوہات کی بنا پر اپنے نام ظاہر کرنے سے انکار کر دیا۔
جے این آئی ایم نے لی حملے کی ذمہ داری
اس حملے کی ذمہ داری جماعت نصر الاسلام والمسلمین (جے این آئی ایم)نے قبول کی ہے، جس کا تعلق بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے ہے۔ یہ تنظیم مالی، برکینا فاسو اور نائجر جیسے ممالک کے ساحل کے علاقے میں سرگرم باغی نیٹ ورک کا حصہ ہے، جو برسوں سے مقامی حکومتوں اور سکیورٹی فورسز کو چیلنج کر رہا ہے۔
حملے کی تصدیق JNIM نے اپنے پرچار چینلز کے ذریعے کی اور اسے "فوجی اہداف پر مجاہدین کی فتح" کے طور پر بیان کیا۔ تنظیم نے طویل عرصے سے خطے میں اسلامی حکمرانی کے قیام کے لیے جدوجہد کی ہے۔
ریاستی نظام پر سنگین اثرات
برکینا فاسو کی آبادی 23 ملین کے لگ بھگ ہے اور ملک کو گزشتہ چند برسوں سے سیاسی عدم استحکام اور انتہا پسندانہ تشدد کا سامنا ہے۔ 2022 میں ملک میں دو نار تختہ پلٹ ہو چکا ہے ، جس کے بعد فوجی جنتا نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ملک کا تقریباً آدھا حصہ دہشت گردوں کے قبضے میں ہے۔