National News

کیا سیما حیدر پاکستانی جاسوس ہے

کیا سیما حیدر پاکستانی جاسوس ہے

 17-18جولائی کو پاکستان سے نیپال کے راستے بھارت آئی سیما حیدر، اس کے عاشق سچن مینا اور سچن کے والد نیترپال سے اتر پردیش اے ٹی ایس نے گہری پوچھ تاچھ کی۔ مضمون لکھے جانے تک تینوں پولیس کی حراست میں ہیں۔ شک ہے کہ 27سالہ سیما پاکستانی جاسوس ہے، جسے 22 سالہ بوائے فرینڈ سچن اور اس کے باپ نے غیر قانونی پناہ دی تھی۔
 کیا سیما پاکستان سے بھیجی گئی ایک تربیت یافتہ جاسوس ہے یا جیسا کہ یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وہ ہزاروں میل کا سفر طے کرنے اور تین ممالک کو عبور کرنے کے بعد اپنا پیار ڈھونڈنے بھارت آئی ہے۔سچن سیما کی محبت کی کہانی پرشک کا ہونا فطری ہے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ پاکستان ہزاروں زخم دے کر بھارت کو مارنے کی اپنی مکروہ پالیسی کے تحت کئی منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔
 اس میں وہ مذہب کے نام پر بھارت میں کچھ مقامی لوگوں کا تعاون حاصل کر کے جہادی ’ سلیپر سیل ‘ کو سرگرم کرتارہتا ہے۔ اس پس منظر میں سچن-سیما اور ان کے خاندان پر تفتیشی ایجنسیوں کی کارروائی جائز معلوم ہوتی ہے۔ دعویٰ ہے کہ سیما پانچویں پاس ہے۔ پھر بھی وہ میڈیا میں اکثر بات کرتے ہوئے ہندی-انگریزی الفاظ روانی سے بول رہی ہے۔ شک کرنے والوں کو لگتا ہے کہ یہ ایک اعلیٰ تربیت یافتہ ایجنٹ کا کام ہے۔
 سیما پر شک کرنے کی دو اور وجوہات ہیں کہ انٹیلی جینس رپورٹس کے مطابق اس کے بھائی اور چچا پاک فوج میں رہ چکے ہیں۔ تلاشی کے دوران سیما کے پاس سے دو پاسپورٹ اور چار موبائل فونز بھی ملے ہیں۔ساتھ ہی کئی دستاویزات بھی ملے ہیں جن میں اس کی عمر مختلف لکھی گئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سیما نے جس طرح کراچی میں اپنی جائیداد بیچ کر چندہ اکٹھا کیا اور پھر پاکستان سے اپنے چار بچوں کے ساتھ دبئی کے راستے نیپال پہنچی اور پھر وہاں سے گریٹر نوئیڈا کے لئے بس پکڑی، وہ ناقابل یقین لگتا ہے۔ 
شکوک و شبہات کا سوال ہے کہ سیما یہ سب کچھ بغیر کسی مدد کے کیسے کر سکتی ہے؟میں خود راجیہ سبھا کی رکن کے طور پر دو مواقع پر پاکستان جا چکا ہوں۔
 میں نے محسوس کیا ہے کہ مقامی باشندوں میں ہندی فلموں/سیریلز کا بہت اثر ہے۔ یہی نہیں، مشہور پاکستانی سیریلز میں ہندی فلموں کے گانے بھی مناسب جگہوں پر استعمال کئے جاتے ہیں۔
 اکثر، بھارتیہ فلموں سے متاثر پاکستانی اپنی روزمرہ کی بول چال میں روایت، خاندان، فوج، اٹوٹ انگ، سرحد وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ 
دونوں ملکوں کے کھان پان میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ اس لئے سیما کو گفتگو میں ہندی الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے دیکھ کر مجھے کوئی تعجب نہیں ہوا۔ بھارت میں جو گروہ سرحد کی نیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
 وہ ان بے شمار لوگوں کے بارے میں کیا کہیں گے جو چین کے زیر کنٹرول بنگلہ دیش، میانمار اور تبت سے پناہ گزین (چینی شہری) نہ صرف بغیر کسی رکاوٹ کے غیر قانونی عمل کے ذریعے بھارت آتے ہیں۔بلکہ قلیل عرصے میں اپنی جعلی ’ بھارتیہ ‘ شناخت بنا نے کے لئے بدعنوان افسران/ملازمین کی ملی بھگت سے آدھار کارڈ وغیرہ کو بھی سرکاری دستاویزات کے طور پر بنایا جاتا ہے۔
 ایسے میں اگر کوئی پاکستانی نیپال کے راستے بھارت آتا ہے تو حیران کن بات ہے کہ نومبر 2016میں بھارت سرکار کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں دو کروڑ غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجرین (زیادہ تر مسلمان)غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ چند مستثنیات اور ناگزیر حالات کو چھوڑ کر، بھارت میں غیر قانونی پرواسیوں کی گرفتاری یا ملک بدری کا شاید ہی کوئی سنگین ثبوت ہو۔
 آخر کس نے سیما حیدر کا پردہ فاش کیا؟کیا وہ انٹیلی جینس کی بنیاد پر پکڑی گئی؟سیما اس سال مئی میں نیپال سے گریٹر نوئیڈا کے ربو پورہ گاو¿ں میں اپنے عاشق سچن کے گھر بغیر کسی پریشانی کے پہنچی تھی۔ اگر وہ چاہتی تو کسی اور ہندی بولنے والی ریاست سے ہونے کی کہانی گھڑ کر خاموش رہ سکتی تھی۔ پھر نہ کوئی اس سے سوال کرتا اور نہ کوئی اس پر شک کرتا۔ 
لیکن سیما سچن کے ساتھ اپنی محبت کو شادی میں بدلنا چاہتی تھی، اس لئے اس نے کورٹ میرج کی درخواست دی۔ 30 جون کو جب دونوں نے وکیل کو شادی کے لئے ضروری دستاویزات فراہم کئے تو انکشاف ہوا کہ سیما پاکستانی ہے۔ اگر سیما تربیت یافتہ جاسوس ہوتی اور یہاں ’ ہینڈلر‘ ہوتی تو کیا وہ ایسی حماقت کرتی؟ سیما حیدر کی تصویر ہر بھارتیہ نیوز چینلز، اخبارات اور سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ 
وہاں سے گزرنے والے لوگ بھی اسے پہچان سکتے ہیں۔ جاسوسی ایک انتہائی خفیہ اور خطرناک کاروبار ہے۔ جاسوس کئی تہوں میں اپنی شناخت چھپاتے ہیں۔ اگر اب بھی سیما جاسوس کے طور پر ابھرتی ہیں تو بلاشبہ وہ بہت ہٹ کرہوگی ۔ جیسا کہ توقع تھی، زیادہ تر پاکستانی عوام سیما حیدر کے خون کے پیاسے ہو چکے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ہندو لڑکے کی محبت میں سیما نہ صرف بھارت پہنچی بلکہ اپنی مرضی سے ہندو بن گئی۔ اب ایک ہندو لڑکے کے لئے اپنے مسلمان شوہر کو چھوڑنا پورے پاکستان میں مردانگی کی تذلیل کا معاملہ بن گیا ہے۔
بلبےر پنج

 punjbalbir@gmail.com
 



Comments


Scroll to Top