انٹرنیشنل ڈیسک: اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان ایران نے خود کو امریکہ کے ساتھ جاری جوہری مذاکرات سے الگ کر لیا ہے۔ یہ فیصلہ اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری اور فوجی تنصیبات پر بڑے پیمانے پر فضائی حملوں اور اس کے جواب میں تہران کی جانب سے ڈرون حملے کرنے کے بعد کیا گیا ہے۔ یہ مذاکرات 2015 کے جوہری معاہدے (JCPOA) کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے کیے جا رہے تھے۔
اس معاہدے کے تحت ایران کو اپنا جوہری پروگرام محدود کرنا تھا اور بدلے میں امریکہ اسے پابندیوں سے ریلیف دینے والا تھا۔ لیکن 2018 میں ٹرمپ انتظامیہ نے امریکہ کو اس معاہدے سے الگ کر دیا۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکہ کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی اوراشارہ دیا کہ ایران اب کسی دباؤ میں آکر مذاکرات نہیں کرے گا۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ہفتے کے روز کہا کہ ملک پر اسرائیل کے حملوں کے بعد امریکہ کے ساتھ آئندہ جوہری مذاکرات بے معنی ہیں۔ سرکاری ٹیلی ویژن نے ایک خبر میں یہ اطلاع دی۔ وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل باغی کے تبصروں نے دونوں ممالک کے درمیان اتوار کو عمان میں ہونے والے مذاکرات پر شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں۔ رپورٹ میں باگھئی کے حوالے سے کہا گیا کہ امریکہ نے اس طرح کام کیا ہے کہ بات چیت بے معنی ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے اپنے حملوں کے ذریعے مجرمانہ کارروائیاں کر کے تمام حدیں پار کر دی ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ کہنے سے گریز کیا کہ مذاکرات منسوخ ہو چکے ہیں۔ ایران کی عدلیہ کے زیر انتظام میزان نیوز ایجنسی نے ان کے حوالے سے بتایا کہ "اتوار کی بات چیت کے بارے میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔"
ٹرمپ کا ردعمل
اس فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ "دو ماہ قبل میں نے ایران کو مذاکرات کے لیے 60 دن کا وقت دیا تھا، آج 61 واں دن ہے، انہوں نے میری بات نہیں سنی، اب شایدان کے پاس 'دوسرا موقع' ہے ۔ انہوں نے یہ بیان اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ٹروتھ سوشل' پر دیا۔ اسرائیلی حملے کے بعد بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی آئی اے ای اے نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ آئی اے ای اے نے کہا کہ ایرانی جوہری مقامات پر حملے کے نتیجے میں "تابکار اور کیمیائی آلودگی" پھیل سکتی ہے۔