نیویارک: وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہندوستان اور امریکہ کے تعلقات کو صرف چین کے تناظر میں دیکھنا نہ صرف حد سے زیادہ آسان ہے بلکہ گمراہ کن بھی ہو سکتا ہے۔ انہوں نے یہ تبصرہ نیویارک کے ون ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں نیوز ویک کے سی ای او دیو پرگاد کے ساتھ بات چیت کے دوران کیا۔ جے شنکر نے کہا کہ ہندوستان-امریکہ کے تعلقات کثیر جہتی ہیں۔ ان میں اسٹریٹجک، تجارتی، ٹیکنالوجی اور ثقافتی تعلقات شامل ہیں۔ ان تعلقات کو صرف چین کے چشمے سے دیکھنا بہت بڑی بھول ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ میں ہندوستانی برادری کا بہت بڑا تعاون ہے جس سے دو طرفہ تعلقات مزید مضبوط ہوتے ہیں۔ یہ گیم چینجر ہے اور اس کا چین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
وزیر خارجہ نے ہندوستان امریکہ تجارتی اور ٹیکنالوجی تعاون پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات بہت مضبوط ہیں اور یہ صرف چین مخالف جذبات پر مبنی نہیں ہیں۔ جے شنکر نے تسلیم کیا کہ امریکہ اور چین کے تعلقات اب پہلے جیسے نہیں ہیں۔ دونوں کو اب سخت مقابلے اور تزویراتی اختلافات کا سامنا ہے۔ جے شنکر نے کہا کہ ہم اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے امریکہ اور چین دونوں کے ساتھ متوازن تعلقات برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم چین کے سب سے بڑے پڑوسی ہیں اور اس کے ساتھ استحکام کے حق میں ہیں، حالانکہ تجارت غیر متوازن ہے۔ جے شنکر نے کہا کہ پہلگام دہشت گردانہ حملہ "معاشی جنگ" کی کارروائی تھی جس کا مقصد کشمیر میں سیاحت کو تباہ کرنا اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ' ہم دہشت گردی کو برداشت نہیں کریں گے۔ اگر دہشت گرد سرحد کے اس پار بھی ہوں تو بھی کارروائی کی جائے گی۔ جوہری بلیک میلنگ ہمیں نہیں روک سکتی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 'آپریشن سندور' کے ذریعے ہندوستان نے پاکستان میں واقع دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، جس کا سب کو علم ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے ثالثی کے دعوے کا ہندوستان-امریکہ تجارتی مذاکرات پر کیا اثر پڑا، جے شنکر نے جواب دیا کہ کاروباری لوگ اپنا کام جانتے ہیں، وہ پیشہ ور ہیں اور توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ جب امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے پی ایم مودی کو ممکنہ پاکستانی حملے کے بارے میں خبردار کیا، تو وزیراعظم نے کوئی دباؤ نہیں لیا، بلکہ واضح اشارہ دیا کہ ہندوستان اس کا جواب دے گا اور ہم نے ایسا ہی کیا۔