اسلام آباد: پہلگام حملے کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے۔ ہندوستان نے اس حملے کا الزام پاکستانی عسکریت پسندوں پر عائد کیا ہے اور ذمہ داروں کو سزا دینے کی قسم کھائی ہے ۔ ہندوستان کی جوابی کارروائی سے پاکستان میں خوف و ہراس کی فضا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز اور ان کے وزرا ء دنیا بھر کے ممالک سے بات کر رہے ہیں اور ہندوستان کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کی اپیل کر رہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تازہ ترین بحران فوجی تصادم میں بدل سکتا ہے۔ جنگ کے خوف کے درمیان پاکستانی قیادت کو اپنے ہی ملک میں تنقید کا سامنا کرنا شروع ہو گیا ہے۔
پاکستانی ماہر ڈاکٹر بکر حسنین نے ایک مضمون میں پاکستانی حکومت پر کٹرتا میں اندھا ہونے کا الزام لگایا ہے، جو ملک کو جنگ کی طرف دھکیل رہی ہے۔ انہوں نے پاکستان کو تاریخ کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ اسے تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے۔ پاکستان کشمیر کے حوالے سے پہلے بھی یہ کوشش کر چکا ہے اور ہر بار ناکام ہوا ہے۔ حسنین نے کہا، 'ہم آپریشن جبرالٹر (1965) کو کیسے بھول سکتے ہیں، جو جموں و کشمیر میں کشمیری مسلمانوں کو بغاوت پر اکسانے میں ناکام رہا؟
مشرقی پاکستان کی یاد دلائی
حسنین نے پاکستان کو مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش)میں بنگالیوں کے خلاف ہونے والے مظالم کی بھی یاد دلائی۔ انہوں نے کہا، 'ہم آپریشن سرچ لائٹ (1971) کو کیسے بھول سکتے ہیں جس کا مقصد بنگالی مزاحمت کو دبانا اور اس وقت کے مشرقی پاکستان کے تمام بڑے شہروں کا کنٹرول حاصل کرنا تھا۔ ہم آپریشن سائیکلون (1979) کو کیسے بھول سکتے ہیں جب امریکہ (اور دیگر)نے پاکستان کے ذریعے افغان مجاہدین کو اسلحہ اور مالی امداد فراہم کی؟
حسنین نے پاکستان پر الزام لگایا کہ وہ امریکہ کے لیے پراکسی کے طور پر کام کر رہا ہے اور ہیروئن کی اسمگلنگ، اے کے 47، مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گرد تنظیموں کی افزائش گاہ بن گیا ہے۔ ہندوتوا پر ہندوستان کی مودی حکومت پر تنقید پر پاکستانی ماہر نے شہباز کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بھی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا ہمارا ریکارڈ مایوس کن رہا ہے۔
پاک - ہند جنگ کون جیتے گا؟
حسین نے آگے سوال کیا کہ آج ہندوستان اور پاکستان جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں، لیکن اس میں کون جیتے گا؟ پاکستان نے ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی ہے۔ انہوں نے رٹگرز یونیورسٹی کی 2019 کی ایک تحقیق کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ 'اگر دونوں ممالک جوہری تنازع میں ملوث ہوتے ہیں تو 100 ملین افراد فوری طور پر ہلاک ہو سکتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ لوگ بھوک سے مر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی جنگ کے فاتح ہمیشہ ہتھیاروں کی صنعت سے وابستہ لوگ ہوتے ہیں، جو جنگی سامان، ڈرون، میزائل، لڑاکا طیاروں، طیارہ بردار بحری جہازوں اور دیگر نظاموں کی فروخت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔