ڈھاکہ: بنگلہ دیش میں حکومت اور فوج کے درمیان میانمار کی سرحد پر مجوزہ 'انسانی راہداری' کو لیکر ٹکراؤ گہرایا ہوتا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس راہداری کو امریکی دباؤ پر بنانے کا منصوبہ تھا ، جس کی اب بنگلہ دیشی فوج نے شدید مخالفت کا اظہار کیا ہے۔ آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے یونس کی عبوری حکومت کی پالیسیوں پر کھلے عام تنبیہ کی ہے اور براہ راست سوال اٹھایا ہے۔ دریں اثنا، بنگلہ دیش کے قومی سلامتی کے مشیر (این ایس اے)خلیل الرحمان نے جلدی میں ایک پریس کانفرنس کی اور واضح کیا کہ انسانی ہمدردی کی راہداری پر کوئی سرکاری بات چیت نہیں ہوئی ہے۔
فوج بنام عبوری حکومت
ڈھاکہ میں فوجی حکام سے خطاب کرتے ہوئے جنرل زمان نے واضح کیا کہ کوئی خونی راہداری نہیں بننے دی جائے گی۔ انہوں نے یونس حکومت پر "فوج کو اندھیرے میں رکھ کر اہم فیصلے کرنے" کا الزام لگایا اور کہا کہ ملک کے مستقبل کا فیصلہ صرف ایک منتخب حکومت کر سکتی ہے، عبوری حکومت نہیں۔
این ایس اے خلیل الرحمان پر سوال
خلیل الرحمان جو کہ مبینہ طور پر امریکی شہری ہیں، کی بطور قومی سلامتی مشیر تقرری پر پہلے ہی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ اب ایسی خبریں ہیں کہ انہوں نے راہداری کو کبھی روہنگیا کی آبادکاری ، کبھی راکھین کو امداد کے لیے استعمال کرنے سے پوری طرح انکار کردیا۔ اس یو ٹرن نے یونس حکومت کی ساکھ پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
فوج کی شرط
جنرل زمان نے واضح کیا کہ دسمبر 2025 تک عام انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے۔ عبوری حکومت عوام کے سامنے جوابدہ نہیں ہے اس لیے وہ ملک کی رہنمائی نہیں کر سکتی۔ آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ یونس حکومت کے دور میں ملک میں تشدد اور جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ ' فوج بنگلہ دیش میں جاری بدمعاشی، تشدد اور انارکی کو مزید برداشت نہیں کرے گی'۔
تختہ پلٹ کی آہٹ
سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ جنرل زمان کا یہ تیکھا رخ کسی ممکنہ فوجی کارروائی کا اشارہ ہو سکتا ہے۔ امریکہ اور این ایس اے کے کردار سے متعلق افواہیں اس بحران کو مزید گہرا کر رہی ہیں۔ بنگلہ دیش اس وقت ایک غیر مستحکم سیاسی دور سے گزر رہا ہے۔ فوج اور عبوری حکومت کے درمیان یہ کشمکش جلد ہی بڑی تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ انتخابات کا مطالبہ ہے یا تختہ پلٹ کی آہٹ ؟ آنے والے ہفتوں میں تصویر مزید واضح ہو جائے گی۔