انٹرنیشنل ڈیسک: ایران کو ان دنوں دوہرے خطرے کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ ایک طرف پاکستان سے دہشت گردی کی کارروائیوں اور اسمگلنگ نے مشکلات میں اضافہ کیا ہے تو دوسری جانب افغانستان سے غیر قانونی دراندازی نے سرحدی علاقوں کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ایسے میں ایرانی حکومت نے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر دیوار بنانے کا عمل تیز کر دیا ہے۔ بھارت ایک عرصے سے پاکستان کے دہشت گردانہ ہتھکنڈوں کا شکار رہا ہے۔ لیکن اب پاکستان کے ان اقدامات سے اس کے دوسرے پڑوسی ایران پر بھی براہ راست اثر پڑ رہا ہے۔ ایران نے کھلے عام پاکستان پر دہشت گرد تنظیموں کو پناہ دینے اور سرحد پار حملوں کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا ہے۔ اسی وجہ سے ایران اب سخت ایکشن لینے کی طرف بڑھ گیا ہے۔
دیوار کی تعمیر کا فیصلہ اچانک نہیں ہوا، یہ دو سال قبل شروع کیا گیا تھا۔
ایران کا سرحد پر دیوار بنانے کا خیال نیا نہیں ہے۔ یہ منصوبہ تقریباً دو سال قبل شروع کیا گیا تھا۔ اب تک 120 کلومیٹر دیوار مکمل ہو چکی ہے اور حال ہی میں اسے مزید 22 کلومیٹر تک بڑھایا گیا ہے۔ ایران کا مقصد پاکستان اور افغانستان کے ساتھ لگ بھگ 953 کلومیٹر طویل سرحد کو ایک مضبوط دیوار کے ساتھ سیل کرنا ہے۔ اس منصوبے کے تحت صرف ایران کے علاقے رضوی خور میں تقریباً 300 کلومیٹر دیوار پر کام جاری ہے۔ مزید یہ کہ سیستان اور بلوچستان جیسے سرحدی علاقے دہشت گردی اور دراندازی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ یہاں آئے روز سیکورٹی فورسز پر حملے ہوتے ہیں۔
جنرل باقری نے خود محاذ کی ذمہ داری سنبھالی۔
ایران کے آرمی چیف میجر جنرل محمد باقری نے حال ہی میں سیستان اور بلوچستان کا دورہ کیا۔ انہوں نے بارڈر پر تعینات سینئر افسران اور کمانڈروں کے ساتھ میٹنگ کی اور ہدایت کی کہ دیوار کی تعمیر کا کام ترجیحی بنیادوں پر جلد از جلد مکمل کیا جائے۔ ایران کی سب سے بڑی تشویش افغان سرحد سے مسلسل غیر قانونی دراندازی اور پاکستان سے دہشت گردوں کی دراندازی اور اسمگلنگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب دیوار کی تعمیر میں تیزی لائی جا رہی ہے۔ خاص طور پر مشرقی سرحد کو سب سے پہلے کور کیا جا رہا ہے کیونکہ وہاں سکیورٹی کی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔
جیش العدل کی دہشت گردی، سینکڑوں فوجی مارے گئے۔
جیش العدل ایران کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ اس دہشت گرد تنظیم نے ایران کے سرحدی علاقوں میں کئی حملے کیے ہیں۔ اکتوبر 2023 میں تفتان کے علاقے میں ایک حملے میں 10 فوجی اور پولیس اہلکار مارے گئے۔ گزشتہ چار سالوں میں اس تنظیم کے حملوں میں 100 سے زائد ایرانی سیکورٹی اہلکار اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ جنوری 2024 میں ایران نے پاکستان کے اندر بلوچستان میں سرجیکل اسٹرائیک کرکے دہشت گردوں کو نشانہ بنایا۔ جواب میں پاکستان نے بھی میزائل داغے اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی۔ اس واقعے نے ثابت کر دیا کہ ایران اب سرحدی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
کیا دیوار سے دراندازی اور دہشت گردی کے واقعات رک جائیں گے؟
سوال یہ ہے کہ کیا دیوار کی تعمیر سے ایران کے سیکورٹی چیلنج کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا؟ ماہرین کا خیال ہے کہ دیوار صرف ایک دفاعی اقدام ہے لیکن جب تک سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی پر سفارتی دباو¿ نہیں آئے گا، خطرہ برقرار رہے گا۔ تاہم یہ دیوار یقینی طور پر فوری ریلیف فراہم کر سکتی ہے، خاص طور پر سرحدی دیہاتوں اور سکیورٹی فورسز کو۔