Latest News

مسجد میں دھماکے کے بعد پھر تشدد کی آگ میں سُلگا یہ مسلم ملک، فرقہ وارانہ فسادات میں پولیس افسر سمیت کئی افراد ہلاک ( ویڈیو)

مسجد میں دھماکے کے بعد پھر تشدد کی آگ میں سُلگا یہ مسلم ملک، فرقہ وارانہ فسادات میں پولیس افسر سمیت کئی افراد ہلاک ( ویڈیو)

انٹرنیشنل ڈیسک: شام میں ایک بار پھر فرقہ وارانہ تشدد بھڑک اٹھا ہے۔ حمص شہر کی ایک علوی مسجد میں ہونے والے شدید بم دھماکے کے بعد ساحلی صوبے لاذقیہ میں پھوٹ پڑنے والے مظاہروں کے دوران کم از کم تین افراد ہلاک ہو گئے جبکہ چالیس سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ یہ تشدد اس وقت بھڑکا جب علوی برادری کے ہزاروں افراد لاذقیہ، طرطوس اور قریبی علاقوں میں احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ یہ مظاہرے26  دسمبر کو حمص کے وادی الذہب علاقے میں واقع امام علی بن ابی طالب مسجد میں ہونے والے دھماکے کے خلاف کیے گئے تھے۔ اس دھماکے میں نماز کے دوران آٹھ افراد جاں بحق اور اٹھارہ دیگر زخمی ہوئے تھے۔

Three people were killed when protests in Syria's Alawite heartland of Latakia spiraled into gunfire and other violence, according to the province's media office https://t.co/Ynay8wFsvj pic.twitter.com/VFG3I2bFWL

— Reuters (@Reuters) December 28, 2025


شامی حکام کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں اس بات کے اشارے ملے ہیں کہ مسجد کے اندر دھماکہ خیز مواد نصب کیا گیا تھا، تاہم اب تک کسی مشتبہ شخص کی سرکاری طور پر شناخت نہیں ہو سکی ہے۔ ہلاک ہونے والوں کے جنازے ہفتے کے روز نکالے گئے جس کے بعد غصہ مزید بڑھ گیا۔ اتوار کو لاذقیہ کے ازہری چوک پر مظاہرے کے قریب دو گھنٹے بعد اچانک فائرنگ کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ رائٹرز کے ایک رپورٹر کے مطابق یہ واضح نہیں ہو سکا کہ فائرنگ کہاں سے ہوئی۔ اس کے بعد سکیورٹی فورسز نے ہوا میں فائرنگ کر کے ہجوم کو منتشر کرنے کی کوشش کی لیکن حالات قابو سے باہر ہو گئے۔ لاذقیہ صوبے کے میڈیا دفتر نے بیان جاری کر کے بتایا کہ تین افراد ہلاک اور چالیس سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ یہ واضح نہیں کیا گیا کہ تمام ہلاکتیں ازہری چوک پر ہی ہوئیں یا دیگر علاقوں میں بھی تشدد پھیلا۔

Al-Arabiya reported four deaths, including a security officer, during clashes between protestors, gunmen belonging to the former Assad regime, pro-government demonstrators and Syrian security forces.

The protests erupted following the bombing of an Alawite mosque in a… pic.twitter.com/qofEjVbbw5

— Joe Truzman (@JoeTruzman) December 28, 2025


شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ثنا نے دعوی کیا کہ لاذقیہ میں سابق حکومت کے مسلح باقیات کی فائرنگ سے ایک سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گیا۔ اسی دوران نامعلوم حملہ آوروں کی جانب سے سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کو بھی نشانہ بنانے کی اطلاعات سامنے آئیں۔ اس دوران سرایا انصار السنة  نامی ایک نامعلوم تنظیم نے ٹیلیگرام پر بیان جاری کر کے مسجد پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ تنظیم نے اشارہ دیا کہ یہ حملہ علوی برادری کو نشانہ بنا کر کیا گیا تھا جنہیں شدت پسند اسلامی گروہ شیعہ اسلام کا گمراہ فرقہ سمجھتے ہیں۔ اتوار کے مظاہرے کی اپیل بیرون ملک مقیم علوی عالم غزال غزال نے کی تھی جو سپریم علوی اسلامک کونسل ان سیریا اینڈ دی ڈائسپورا کے سربراہ ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے فوٹوگرافر کے مطابق لاذقیہ میں حکومت کے حامی جوابی مظاہرین نے علوی مظاہرین پر پتھراؤ کیا جبکہ ایک جوابی مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ سکیورٹی فورسز نے دونوں فریقوں کو الگ کرنے کی کوشش کی۔
شامی ٹیلی ویژن کے مطابق طرطوس میں ایک پولیس اسٹیشن پر دستی بم پھینکے جانے سے دو سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے جبکہ لاذقیہ میں سکیورٹی فورسز کی گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔ قابل ذکر ہے کہ دسمبر 2024 میں بشار الاسد کے اقتدار سے ہٹنے اور سنی قیادت والی حکومت کے قیام کے بعد سے شام میں متعدد بار فرقہ وارانہ تشدد بھڑک چکا ہے۔ اسد روس فرار ہو گئے تھے۔ مارچ 2025 میں اسد کے حامیوں کے حملے کے بعد ہونے والے تشدد میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت علویوں کی تھی۔ تاہم حکومت نے مسجد دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے ذمہ داروں کو سزا دلانے کا وعدہ کیا ہے لیکن اب تک کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ علوی برادری مسلسل امتیازی سلوک، من مانی گرفتاریوں اور سکیورٹی کی کمی کی شکایت کر رہی ہے۔
 



Comments


Scroll to Top