Latest News

سی اے اے مظاہرین کے پوسٹر لگانے کا معاملہ،الٰہ آباد ہائی کورٹ نے  یوگی حکومت کو لگائی پھٹکار، دیا یہ حکم

سی اے اے مظاہرین کے پوسٹر لگانے کا معاملہ،الٰہ آباد ہائی کورٹ نے  یوگی حکومت کو لگائی پھٹکار، دیا یہ حکم

نیشنل ڈیسک:الٰہ  آباد ہائی کورٹ نے پیر کے روز لکھنؤکی ضلع انتظامیہ کو ریاستی دارالحکومت میں لگائے گئے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والے مظاہرین کے ہورڈنگزکوہٹا دینے کا حکم دیتے ہوئے حکام کو 16 مارچ تک تفصیلی رپورٹ داخل کرنے کو کہا ہے۔اس سے پہلے اتوار کو ہائی کورٹ نے شہریت ترمیمی قانون ( سی اے اے )کی مخالفت میں مظاہرے کے دوران تشدد کے ملزمین کی ہورڈنگ لگانے کے معاملے میں اظہارِ ناراضگی کی تھی ۔ ریاست کی یوگی حکومت نے لکھنو میں 19 دسمبر کو ہونے والی تشدد میں عوامی جائداد کو نقصان پہنچانے والے افراد کے ہورڈنگس لگائے تھے ۔جس پر الٰہ  آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس گووند ماتھر نے ازخود نوٹس لیا۔ چھٹی ہونے کے باوجود اتوار کو چیف جسٹس ماتھر اور جسٹس رمیش سنہا کی بینچ نے اس پر سنوائی کی۔

PunjabKesari
بینچ نے کہا کہ مبینہ سی اے اے مخالف مظاہرین کے پوسٹر لگانے کی حکومت کی کارروائی ناانصافی ہے۔ یہ متعلقہ افراد کی شخصی آزادی پر حملہ ہے۔یاد رہے کہ لکھنؤ میں انیس دسمبرکوشہریت قانون کیخلاف احتجاج پرتشددہوگیاتھا۔ جس کے بعدتشدد کے ملزموں کے خلاف اے ڈی ایم سٹی کی عدالت سے ریکوری آرڈر جاری ہوا تھا۔اورکئی مظاہرین کیخلاف لکھنؤ میں پوسٹرز اور بینرز لگائے گئے۔اس معاملے میں حکومت کا موقف رکھتے ہوئے ریاست کے ایڈووکیٹ جنرل راگھویندر سنگھ نے کہا کہ ہائی کورٹ کو اس طرح کے معاملے میں دخل دینے سے بچنا چاہئے۔ حکومت کے فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے مستقبل میں اس طرح کے پرتشدد واقعات پر قدغن لگے گی۔ انہوں نے از راہِ استدلال نظیریں پیش کیں۔

PunjabKesari
عدالت نے ریاستی حکومت کے افسران سے کہا کہ اس طرح کا کوئی عمل نہیں ہونا چاہئے جس سے کسی کے دل کو ٹھیس پہنچے۔ پوسٹر لگاناحکومت کے  لئے  بھی ذلت کا باعث ہے اور عام شہری کے لئے بھی ۔ چیف جسٹس نے لکھنؤ کے پولیس کمشنر اور ڈی ایم کوبھی طلب کیا تھا۔ بعدازاں پولیس کمشنر کی جانب سے ڈی سی پی نارتھ اور ڈی ایم کی جانب سے اے ڈی ایم کو بھیجا گیا۔چیف جسٹس کی بینچ نے لکھنؤ کے ڈی ایم اور پولیس کمشنر سے پوچھا کہ کس قانون کے تحت لکھنؤ کی سڑکوں پر اس طرح کے پوسٹر لگائے گئے۔ عوامی جگہوں پر متعلقہ افرا د کی اجازت کے بغیر اس کا فوٹو یا پوسٹر لگانا غلط ہے۔ یہ پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی ہے۔
غور طلب ہے کہ گذشتہ سال 19 دسمبر کو جمعہ کے روز نماز کے بعد لکھنؤکے چار تھانہ حلقوں میں تشدد پھیلا تھا۔ ٹھاکرگنج، حضرت گنج، قیصرباغ اور حضرت گنج میں توڑ پھورڑ کرنے والوں نے کئی گاڑیاں بھی نذر آتش کر دی تھیں۔ ریاستی حکومت نے کہا تھا کہ وہ نقصان کی بھرپائی تشددکرنے والوں سے وصول کرے گی۔ بعد ازاں پولیس نے فوٹو-ویڈیو کی بنیاد پر 150 سے زائد افراد کو نوٹس بھیجے ۔ تفتیش کے بعد انتظامیہ نے 57 افراد کو عوامی جائیداد کو نقصان پہنچانے کا مجرم پایا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ تقریباً 88 لاکھ روپے کے نقصان کی بھرپائی کریں۔

PunjabKesari
ضلع انتظامیہ نے5مارچ کی رات کو 57 افراد کے نام، پتہ اور تصاویر والے ہورڈنگ لگادئیے۔ توڑ پھوڑ والے علاقوں میں یہ کاروائی کی گئی تھی۔ ہورڈنگس میں ہے کہ حسن گنج، حضرت گنج، قیصرباغ اور ٹھاکر گنج کے علاقوں میں 57 افراد سے 88 لاکھ 62ہزار 537 روپیے کی وصولی کی جانی ہے۔ لکھنو کے ڈی ایم ابھیشیک پرکاش نے کہا تھا کہ اگر طے وقت پر ان افراد نے جرمانہ نہیں بھرا تو ان کی جائیداد قرق کر لی جائے گی۔
جن افراد کے نام ہورڈنگ لگائے گئے ان میں آئی پی ایس ایس آر داراپوری، سماجی کارکن اور اداکار صدف جعفری اور آرٹسٹ دیپک کبیر شامل ہیں۔ کبیر نے کہا تھا کہ حکومت ڈر کا ماحول بنارہی ہے۔ ہورڈنگ میں شامل افراد کی ماب لنچنگ ہو سکتی ہے۔ دہلی تشدد کے بعد ماحول محفوظ نہیں رہا ۔ سرکار ہر کسی کو خطرے میں ڈالنے کا کام کر رہی ہے۔
 



Comments


Scroll to Top