نیشنل ڈیسک :اگرچہ پاکستان ہندوستان کے اقلیتوں کا بے وجہ رہنما بن کر پوری دنیا میں خود کو صحیح ٹھہرانے کی ناکام کوششیں کر رہا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ پاک سے مسلم انتہا پسند ہندو اقلیتوں کا وجود ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں حالات اتنے بدتر ہو چکے ہیں کہ مسلم انتہا پسند تبدیلی مذہب اور نکاح کے بعد 90 فیصد ہندو لڑکیوں کا یا تو قتل کر دیتے ہیں یا پھر انہیں جسم فروشی کے دھندے میں دھکیل دیتے ہیں۔ ہندؤوں کی معمولی لڑکیوں کا تبدیلی مذہب اور جبری نکاح ایسے افراد سے کرواتے ہیں جو پہلے سے ہی شادی شدہ ہوتے ہیں۔
میڈیا کو دئیے ایک انٹرویو میں عمران کے ایم پی ڈاکٹر وانک وانی نے بتایا کہ انہوں نے نیشنل اسمبلی میں شادی کی کم از کم عمر 18 سال کئے جانے اور زبردستی تبدیلی مذہب کو روکنے کا بل لایا ہے۔ڈاکٹر وانک وانی کا خیال ہے کہ اس بل کے آنے کے بعد 18 سال سے کم عمر کا کوئی شخص اپنا مذہب تبدیل نہیں کر سکے گا۔جب کوئی ایسا کرنا چاہے گا تو اسے عدالت جانا پڑے گا اور یہ بتائے گا کہ اسے اپنانے والے مذہب میں کون سی بات اچھی لگی۔اس کے علاوہ مذہب سے ملنے والی تعلیم اور اپنی مرضی بھی عدالت میں ظاہر کرنی ہوگی۔ البتہ یہ معاملہ لٹکا ہوا ہے ۔
سال 2016 میں صوبہ سندھ کی حکومت غیر مسلم شہریوں کو جبراً تبدیلی مذہب سے بچانے کے لئے ایسا ہی ایک بل لے کر آئی تھی. مذہبی جماعتوں نے اس بل کے کچھ حصوں کو لے کر اعتراض ظاہر کیا تھا اور بڑے پیمانے پر کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جس کی وجہ سے بل منسوخ ہو گیا۔
پاکستان کے انگریزی روزنامہ 'ڈان' میں کچھ وقت پہلے ایک انسانی حقوق کارکن کے حوالے سے بیان چھپا تھا کہ پاکستان میں سندھ کے عمرکوٹ ضلع میں زبردستی مذہب کی تبدیلی کے تقریباً 25 واقعات ہر ماہ ہوتے ہیں۔ اس علاقے میں غیر مسلم دلت اقلیتی رہتے ہیں۔علاقہ انتہائی پسماندہ ہونے کی وجہ سے یہاں تبدیلی مذہب اور جبراً شادی کی شکایتیں پولیس میں درج ہی نہیں کی جاتی ہیں۔ رہنما وانک وانی کا بھی یہ کہنا ہے کہ کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک سال میں لوگوں نے ہزاروں لڑکیوں کا تبدیلی مذہب کروایا ہے۔
انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا تھا کہ زبردستی تبدیلی مذہب کے لئے 2 یا 3 مدرسے یہاں سرگرم ہیں۔ ان میں بارچھوندی شریف میاں مٹھو مدرسہ بھی ہے جو دوسرے چھوٹے مدارس کی بھی مدد کرتا ہے۔گزشتہ قریب 2 سالوں میں 8 ہندو نابالغ لڑکیوں کے اغوا اور جبراً شادی کے ایسے معاملے سامنے آئے جن میں ان کے اہل خانہ نے پولیس میں شکایت تو کی لیکن لڑکیوں نے کورٹ میں خود اپنی مرضی سے نکاح کی بات بولی۔