سال 2025 ہندوستان کے سائنسی اور تکنیکی سفر میں ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا ہے، کیونکہ وہ مختلف اہم شعبوں میں خود اعتمادی کے ساتھ اور دنیا بھر میں اپنی نمایاں شناخت کے ساتھ ابھرا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات میں آنے والی ایک بنیادی تبدیلی کی علامت ہے۔ مصنوعی ذہانت اور سیمی کنڈکٹر سے لے کر خلائی تحقیق، جوہری توانائی اور اہم معدنیات تک کے شعبوں میں ہندوستان نے یہ ثابت کیا ہے کہ اب وہ عالمی ٹیکنالوجیز کو صرف اختیار ہی نہیں کر رہا بلکہ انہیں شکل بھی دے رہا ہے۔
آزاد بھارت کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب تکنیکی خود انحصاری کوئی خواب نہیں بلکہ ایک ایسی حقیقت بنتی جا رہی ہے جو ترقی یافتہ ہندوستان 2047 کے وژن کے ساتھ مضبوطی سے جڑی ہوئی ہے۔
اے آئی انقلاب: ڈیجیٹل بنیاد کا استحکام
انڈیا اے آئی مشن کے تحت، اخلاقی اور انسان مرکز مصنوعی ذہانت کے شعبے میں ہندوستان کو صفِ اول میں لانے کے مقصد سے حکومتِ ہند نے دس ہزار کروڑ روپے سے زائد کی اہم سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کا مقصد مصنوعی ذہانت کی سماجی جمہوریت کاری ، خاص طور پر ہندوستان کے دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان موجود بڑے فرق کو ختم کرنے کا ایک ذریعہ بنا نا یقینی کرنا ہے ۔
مالی سال 2026 کی پہلی سہ ماہی میں ہندوستان نے ملک کے اے آئی سے متعلق قومی بنیادی ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر توسیع کا اعلان کیا اور اس کے تحت 15916 نئے جی پی یو شامل کیے گئے۔ ہندوستان کی قومی کمپیوٹنگ صلاحیت اب 38 ہزار جی پی یو سے تجاوز کر چکی ہے۔حال ہی میں ہندوستان اے آئی سے متعلق عالمی مقابلے میں ریاستہائے متحدہ امریکہ اور چین کے بعد تیسرے نمبر پر رہا۔ اس سے جنوبی کوریا، برطانیہ، سنگاپور، جاپان، کینیڈا، جرمنی اور فرانس جیسی ترقی یافتہ معیشتوں سے آگے نکل گیا ہے۔
سیمی کنڈکٹر کے شعبے میں بھارت کی خود کفالت کا نیا دور
ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت نے سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ کو ملک کے تکنیکی مشن کا بنیادی حصہ بنایا ہے۔ مئی 2025 میں ہندوستان نے نوئیڈا اور بنگلورو میں تین نینو میٹر سائز کی چِپ کے ڈیزائن کے لیے مخصوص دو جدید یونٹس کا افتتاح کر کے ایک بڑا قدم آگے بڑھایا۔ ان یونٹس کی اہمیت محض مینوفیکچرنگ صلاحیت حاصل کرنے سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ یونٹس بھارت کے اس سفر کی شروعات کی علامت ہیں جس میں یہ ملک سیمی کنڈکٹر سے متعلق اپنی ضروریات کے 9 0فیصد حصے کو درآمد کرنے کی حالت سے نکل کر اب اس اسٹریٹجک طور پر اہم شعبے میں اپنا مستقبل خود طے کرنے کی سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔
تین نینو میٹر سائز کی چِپ اسمارٹ فون اور لیپ ٹاپ سے لے کر اعلی صلاحیت والے کمپیوٹرز تک دنیا کی سب سے جدید ٹیکنالوجی کا بنیادی حصہ ہیں۔ اکلے 2025 میں ہندوستان نے مزید پانچ سیمی کنڈکٹر یونٹس کی منظوری دی۔ اس کے ساتھ چھ ریاستوں میں قائم سیمی کنڈکٹر یونٹس کی مجموعی تعداد 10ہو گئی ہے۔
اسٹریٹجک طور پر اہم نایاب ارضی عناصر اور ضروری معدنیات مشن
جس طرح بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر میں فولاد ضروری ہوتا ہے، اسی طرح اہم معدنیات سیمی کنڈکٹر کی تیاری کی بنیاد ہیں۔ ان کے بغیر کوئی جدید الیکٹرانکس، اے آئی اور ڈیجیٹل مستقبل ممکن نہیں ہو سکتا۔ان معدنیات کی مضبوط گھریلو فراہمی کو فروغ دے کر ہندوستان ان ممالک سے درآمدات پر اپنا انحصار کم کر سکے گا جو اس وقت کئی اہم معدنیات کی سپلائی چین پر حاوی ہیں۔
چکری معیشت کی سمت ٹھوس اقدامات
2025 میں ایک خاص دور اندیش قدم اٹھایا گیا۔ بھارت نے لیتھیم، کوبالٹ، نکل اور نایاب ارضی عناصر جیسے اہم معدنیات کی ری سائیکلنگ کے لیے گھریلو صلاحیت کی تعمیر کے مقصد سے 1500 کروڑ روپے کی ری سائیکلنگ اسکیم ( 2025-26 سے 2030-31 ) کو منظوری دی ہے ۔
خلائی سائنس اور ٹیکنالوجی: گگن یان اور اس سے آگے خلائی ٹیکنالوجی قومی فخر کی علامت بنی رہی۔ اسرو نے اپنے چند نہایت پیچیدہ اور عالمی سطح پر اہم مشن کامیابی سے مکمل کیے۔ ایک بڑی کامیابی 30جولائی 2025 کو جی ایس ایل وی ایف 16کے ذریعے ملی ، جب ریڈار چر ریڈار سیٹیلائٹ خلا میں بھیجا گیا۔ یہ تاریخی کامیابی ہندوستان - امریکہ مشترکہ مشن دنیا کا سب سے جدید زمینی مشاہداتی ریڈار سیٹلائٹ ہے۔
انسان بردار خلائی پرواز سے متعلق ہندوستان کی خواہشات نے جولائی2025 میں اس وقت ایک تاریخی کامیابی حاصل کی جب گروپ کیپٹن شبھانشو شکلا بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کا سفر کرنے والے پہلے بھارتی خلا باز بنے۔ سال کے اختتام پر اسرو نے 2 نومبر2025 کو ایل وی ایم 3 ، ایم 5 راکٹ کے ذریعے سی ایم ایس زیرو تھری کا کامیاب لانچ کر کے ایک اور سنگ میل عبور کیا۔
تقریبا 4400 کلوگرام وزن کے ساتھ سی ایم ایس 03 اب تک ہندوستان کا لانچ کیا گیا سب سے بھاری سیٹلائٹ ہے، جو ایل وی ایم 3 لانچ یان (وہیکل ) کی بھاری وزن اٹھانے کی بڑھتی ہوئی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے، اور اسے جی ٹی او مدار میں نصب کیا گیا تھا۔