National News

ہندوستان کی سائنسی برادری اگلی نسل کے لیے ایک سنگ میل: ڈاکٹر پی کے مشرا

ہندوستان کی سائنسی برادری اگلی نسل کے لیے ایک سنگ میل: ڈاکٹر پی کے مشرا

نئی دہلی:وزیر اعظم کے پرنسپل سکریٹری ڈاکٹر پی کے مشرا نے آج بھابھا اٹامک ریسرچ سینٹر (بی اے آر سی) ٹریننگ اسکول میں 68 ویں گریجویشن تقریب میں گریجویٹ ہونے والے سائنسی افسروں سے خطاب کیا، جو ادارے اورہندوستان کی سائنسی برادری اگلی نسل کے لیے ایک سنگ میل ہے ڈاکٹر مشرا نے بی اے آر سی کی وراثت اور ڈاکٹر ہومی جہانگیر بھابھا کے ویڑن پر تبصرہ کرتے ہوئے اس کی تربیتی کارکردگی اورہندوستان کی ترقی میں تعاون کے لیے ادارے کی ستائش کی۔ انھوں نے داخلی تبدیلی اور بدلتی ہوئی بین الاقوامی حرکیات کی وجہ سےہندوستان کی عالمی ترقی کو اجاگر کیا اور نوجوانوں کی آبادی، بنیادی ڈھانچے کی توسیع اور تکنیکی کامیابیوں جیسی طاقتوں کا ذکر کیا۔
موصوف نے 2047 میں وکست بھارت کے لیے وزیر اعظم کے وڑن کو اجاگر کیا اور ملک کو ایک ترقی یافتہ ملک میں تبدیل کرنے میں ’اصلاحات، کارکردگی اور تبدیلی‘ کی اہمیت پر زور دیا۔
ڈاکٹر مشرا نے یو پی آئی 2024-25 میں 185 بلین ٹرانزیکشنز کی پروسیسنگ اور 2030 تک 500 گیگاواٹ نان فوسل فیول صلاحیت سمیت بولڈ کلائمیٹ وعدوں اور نیشنل گرین ہائیڈروجن مشن جیسے اقدامات نیز 100 سے زیادہ یونیکارن والے تیسرے سب سے بڑے اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کے طور پرہندوستان کی پوزیشن، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کے پیمانے جیسی متعدد قومی کامیابیوں کا ذکرکیا۔
خلائی شعبے کے کامیاب آغاز کا ذکر کرتے ہوئے جمسٹر مشرا نے کہا کہ جوہری توانائی کے لیے بھی اسی طرح کے اقدامات کا تصور کیا گیا ہے جو صاف توانائی اور قومی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔
مسٹر مشرا نے بجٹ 2024-25 کے اہم بجٹ اعلانات جیسے بھارت اسمال ماڈیولر ری ایکٹرز اور جدید جوہری ٹکنالوجیوں کے تحقیق و ترقی کی سپورٹ اور 2047 تک 100 گیگاواٹ جوہری صلاحیت تک توسیع کا ہدف مقرر کیا۔
جوہری توانائی کے سماجی اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے مسٹرمشرا نے کینسر کی دیکھ بھال کے لیے ریڈیو آئسوٹوپس کے استعمال اور گندے پانی کے ٹریٹمنٹ اور زراعت کے ذخیرہ کے لیے تابکاری ٹکنالوجی کا ذکر کیا۔ غذائی تابکاری کے بنیادی ڈھانچے کو فروغ دینے کے مقصد سے حالیہ بجٹ اہتماموں پر روشنی ڈالتے ہوئے مسٹر مشرا نے 2024-25 کے مرکزی بجٹ کے تحت ایم ایس ایم ای سیکٹر کے لیے 50 ملٹی پروڈکٹ فوڈ ریڈی ایشن یونٹس کی منظوری اور پردھان منتری کسان سمپدا یوجنا کے تحت پروجیکٹوں کی کامیابی پر تبصرہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ 2008 سے اب تک 16 منصوبوں کی منظوری دی جا چکی ہے جن میں سے 9 آپریشنل ہیں جبکہ 2000 سے اب تک 19 فعال تنصیبات کام کر رہی ہیں۔ اٹامک انرجی ریگولیٹری بورڈ اہم تکنیکی معاونت فراہم کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔ انھوں نے کہا کہ 12 ریاستوں میں تابکاری کی سہولیات شیلف لائف کو بڑھا رہی ہیں اور پھلوں ، مصالحوں ، دالوں اور جڑی بوٹیوں جیسی غذائی مصنوعات کے لیے بین الاقوامی فائٹوسینیٹری معیارات کی تعمیل کو یقینی بنا رہی ہیں۔
ڈاکٹر مشرا نے سائنسی برادری پر زور دیا کہ وہ تحقیقی تجربہ گاہوں سے ابھرنے والی اسپن آف ٹکنالوجیوں کو کمرشیلائز کریں۔ انھوں نے کہا کہ کوویڈ کے بعد کی دنیا بنیادی تبدیلیوں سے گزری ہے ، جاری عالمی تنازعات نے جغرافیائی سیاسی صف بندیوں اور معاشی استحکام کو نئی شکل دی ہے۔
ہندوستان کے آزادانہ جوہری سفر اور سائنسی اور سفارتی حلقوں میں اس کی پہچان کو اجاگر کرتے ہوئے پرنسپل سکریٹری نے امریکہ کے ساتھ معاہدے ، این ایس جی کی چھوٹ اور آئی ٹی ای آر میں شرکت جیسے اہم سنگ میل کا حوالہ دیتے ہوئے عالمی جوہری تعاون میں بھارت کے قد کو اجاگر کیا۔ انھوں نے کہا کہ جوہری توانائی موسمیاتی چیلنجوں کے جواب میں پائیدار ترقی اور صاف توانائی کے لیے ایک بڑا موقع پیش کرتی ہے۔
جوہری توانائی کے منصوبوں کی سرمائے پر مبنی نوعیت کا اعتراف کرتے ہوئے ڈاکٹر مشرا نے کہا کہ بروقت تکمیل، کم لاگت والے فنانس تک رسائی اور نجی شعبے کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا ٹیرف کو کم کرنے اور فزیبلٹی کو بہتر بنانے کی کلید ہے۔ انھوں نے محققین کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ جوہری توانائی کو بھارت کا ترجیحی بجلی کا ذریعہ بنانے کے لیے لاگت میں کمی کی حکمت عملی میں جدت لائیں۔
ڈاکٹر مشرا نے جوہری توانائی ریگولیٹری بورڈ اور بی اے آر سی سیفٹی کونسل کے کردار کا حوالہ دیتے ہوئے سیفٹی گورننس کو مضبوط بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔ انھوں نے ریگولیٹری میکانزم پر نظر ثانی کرنے اور تحفظ سے متعلق مزید تحقیق میں سرمایہ کاری کرنے پر زور دیا، خاص طور پر جب نجی شعبے کی شرکت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حفاظتی معیارات پر عوام کا اعتماد اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
اپنے خطاب کے اختتام پر ڈاکٹر مشرا نے گریجویٹس پر زور دیا کہ وہ تاحیات آموزش کو اپنائیں، تبدیلی کو اپنائیں اور مشترکہ ماحول میں کھلے پن، احترام اور عاجزی کو فروغ دیں۔ انھوں نے کہا کہ تکنیکی مہارت کو رویے اور نقطہ نظر سے ہم آہنگ کیا جانا چاہیے ، خاص طور پر اسٹیک ہولڈروں کے ساتھ بات چیت میں۔ انھوں نے نئے سائنسی افسران کو ترغیب دی کہ وہ موقاع کا فائدہ اٹھائیں، انھیں قبول کریں اور مستقبل کے چیلنجوں اور تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے خود کو تیار کریں۔



Comments


Scroll to Top