سری نگر:جموں و کشمیر کے وزیر اعلی عمر عبداللہ نے راجیہ سبھا انتخابات کے نتائج پر وضاحت دیتے ہوئے انتخابات میں ووٹوں کی شفافیت اور اضافی ووٹوں کی پہچان کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں انہوں نے پارٹی کے ووٹوں کے مکمل تحفظ اور کسی بھی رکن اسمبلی کی کراس ووٹنگ نہ کرنے کا دعویٰ کیا، لیکن ساتھ ہی بی جے پی کے چار اضافی ووٹوں کی بنیاد اور کچھ ووٹ غیر معتبر کرنے والے ایم ایل ایز کی شناخت پر بھی توجہ دلائی۔
وزیر اعلیٰ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ این سی کے تمام ووٹ چار نشستوں کے انتخابات میں برقرار رہے، جیسا کہ پارٹی کے انتخابی ایجنٹ نے ہر پولنگ سلپ کی نگرانی کے دوران دیکھا۔’ہم نے ہر پولنگ سلپ کا بغور مشاہدہ کیا اور یہ بات واضح ہے کہ کسی بھی رکن اسمبلی نے پارٹی کے ووٹوں کے خلاف رائے نہیں دی۔ اس کے باوجود بی جے پی کے ووٹوں میں چار اضافی ووٹ نظر آئے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ اضافی ووٹ کہاں سے آئے اور کون سے ایم ایل ایز نے جان بوجھ کر اپنے ووٹ غیر معتبر کر دیے، جس کے نتیجے میں بی جے پی کو فائدہ پہنچا۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ کیا وہ ایم ایل ایز ہمت کریں گے کہ سامنے آئیں اور اعتراف کریں کہ انہوں نے نیشنل کانفرنس کو ووٹ دینے کا وعدہ کر کے بی جے پی کے حق میں ووٹ دیا؟ انہیں کس قسم کے دباو¿ یا ترغیب نے یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا؟
وزیر اعلیٰ نے واضح کیا کہ پارٹی کے اندر ووٹوں کی شفافیت اور ایم ایل ایز کی وفاداری کے معاملات بہت اہم ہیں۔ ’یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا بی جے پی کی خفیہ ٹیم میں سے کوئی شخص اس حقیقت کو تسلیم کرے گا اور اپنی ’روح فروشی‘ کا اعتراف کرے گا۔ یہ سوالات پارٹی کی ساکھ اور جموں و کشمیر میں جمہوری عمل کی شفافیت کے حوالے سے بہت اہم ہیں۔‘
سیاسی مبصرین کے مطابق، عمر عبداللہ کا یہ بیان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ نیشنل کانفرنس کی قیادت انتخابات کے دوران ووٹوں کی مکمل نگرانی کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور پارٹی کے ایم ایل ایز کی وفاداری کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے گئے۔ انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد پارٹی میں خوشی کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ بی جے پی کے ووٹوں میں اضافی ووٹ کیسے شامل ہوئے اور کچھ ایم ایل ایز نے ووٹ غیر معتبر کیوں کیے۔
جموں و کشمیر کے سیاسی حلقوں میں عمر عبداللہ کے ٹویٹ کے بعد بحث اور تجزیے جاری ہیں۔ کچھ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ بیان پارٹی کے اندر شفافیت اور ایم ایل ایز کی ذمہ داری کے حوالے سے مضبوط پیغام دیتا ہے، جبکہ دیگر حلقے اسے انتخابات میں ممکنہ سیاسی سازش کے ضمن میں اہم سوالیہ نشان قرار دے رہے ہیں۔ اس بیان نے عوام میں بھی دلچسپی پیدا کی ہے، اور سیاسی حلقے اس بات کے منتظر ہیں کہ پارٹی یا دیگر فریق اضافی ووٹوں اور غیر معتبر ووٹ ڈالنے والے ایم ایل ایز کی شناخت کے حوالے سے وضاحت کریں۔
واضح رہے کہ جموں و کشمیر کے راجیہ سبھا انتخابات میں این سی نے تین نشستیں حاصل کیں، جبکہ بی جے پی نے ایک نشست جیتی۔ عمر عبداللہ کے بیان کے مطابق، این سی کے ووٹ مکمل طور پر برقرار رہے، لیکن بی جے پی کے اضافی ووٹوں اور کچھ ووٹوں کی عدم قبولیت کے معاملے نے سوالات پیدا کیے ہیں، جن کے حل کے لیے سیاسی اور پارٹی سطح پر مباحثے جاری ہیں۔
عمر عبداللہ نے اپنے بیان میں یہ بھی واضح کیا کہ پارٹی کی شفافیت اور ایم ایل ایز کی وفاداری جمہوری عمل کی بنیاد ہے، اور یہ ہر حال میں یقینی بنائی جانی چاہیے تاکہ ووٹ کا صحیح استعمال ہو اور عوامی مینڈیٹ کی ساکھ قائم رہے۔
یہ معاملہ جموں و کشمیر کی سیاسی فضا میں اہمیت اختیار کر چکا ہے اور آنے والے دنوں میں سیاسی جماعتیں اور پارٹی قیادت اس پر وضاحت دینے یا نتائج کا جائزہ لینے کی توقع رکھتے ہیں، تاکہ ووٹوں کی شفافیت اور جمہوری عمل کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔