انٹرنیشنل ڈیسک: یمن کی آگ اب براہِ راست خلیج کے اقتدار کے توازن کی سیاست تک پہنچ چکی ہے۔ کبھی متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زاید کو اپنا رہنما ماننے والے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اب واضح اشارے دے رہے ہیں کہ خلیج میں قیادت کا مرکز ریاض ہی ہوگا۔ یمن میں حالیہ پیش رفت اس بدلے ہوئے مساوات کی سب سے بڑی مثال بن گئی ہے۔ خانہ جنگی سے جوجھ رہے یمن میں حالات اس وقت انتہائی سنگین ہو گئے جب سعودی عرب نے مکالا بندرگاہ پر متحدہ عرب امارات سے منسلک فوجی جہازوں پر فضائی حملہ کر دیا۔ الزام تھا کہ یہ جہاز سدرن ٹرانزیشنل کونسل کو اسلحہ اور بکتر بند گاڑیاں فراہم کر رہے تھے۔ ریاض نے اسے اپنی قومی سلامتی کی ریڈ لائن قرار دیتے ہوئے متحدہ عرب امارات کو 48گھنٹوں کے اندر یمن سے اپنی فوج واپس بلانے کا الٹی میٹم دے دیا۔
UAE says it will withdraw its remaining forces from Yemen after Saudi Arabia demanded they leave within 24 hours, escalating a major rift between the two Gulf allies and oil producers. — Reuters#Yemen #Saudi #UAE pic.twitter.com/tWpj0V4Bzw
— Shaan (@ShaanUnfiltered) December 31, 2025
جھکا متحدہ عرب امارات
سعودی دبا ؤکے سامنے متحدہ عرب امارات نے بغیر کسی شرط کے اپنی فوج واپس بلانے کا اعلان کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی ولی عہد محمد بن سلمان نے یہ واضح کر دیا کہ خلیج میں حتمی فیصلہ سعودی عرب کا ہوگا۔ یہ واقعہ صرف یمن تک محدود نہیں رہا بلکہ خلیج تعاون کونسل کے اندر بڑھتے ہوئے تنا کو بھی بے نقاب کر گیا۔ الجزیرہ کے مطابق سعودی اتحاد کے ترجمان میجر جنرل ترکی المالکی نے دعوی کیا کہ مکالا بندرگاہ پر پہنچنے والے جہازوں میں اسی سے زائد فوجی گاڑیاں، اسلحہ اور گولہ بارود کے کنٹینر تھے، جنہیں سعودی عرب کی اطلاع کے بغیر الریان ایئر بیس منتقل کیا جا رہا تھا۔ سعودی عرب کا الزام ہے کہ متحدہ عرب امارات نے حضرموت اور المہرہ جیسے اسٹریٹجک صوبوں میں سدرن ٹرانزیشنل کونسل کو فوجی کارروائی کے لیے اکسایا، جو سعودی عرب اور عمان کی سرحدوں سے متصل ہیں۔
بڑا سوال: 'بگ برادر ' کون
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ تصادم محمد بن سلمان کی بڑھتی ہوئی خواہشات کی عکاسی کرتا ہے۔ جہاں پہلے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی شراکت داری مضبوط سمجھی جاتی تھی، وہیں اب قیادت اور بالادستی کی دوڑ کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ متحدہ عرب امارات کا جھکاؤ جنوبی یمن کے حامی گروہوں کی طرف رہا ہے، جبکہ سعودی عرب ایک متحد یمن چاہتا ہے۔ یہی اسٹریٹجک اختلافات اب کھلے فوجی اور سفارتی تصادم کی شکل اختیار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی واپسی سے یمن میں سعودی پوزیشن ضرور مضبوط ہوگی، لیکن خلیج تعاون کونسل کی یکجہتی، علاقائی استحکام اور یمن کا بحران مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ یہ ٹکراؤ واضح اشارہ دیتا ہے کہ خلیج کی سیاست اب ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے، جہاں سعودی عرب خود کو بلا شرکت غیرے قائد کے طور پر قائم کرنا چاہتا ہے۔