واشنگٹن: امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بدھ کو اسرائیل کے صدر کو ایک خط بھیج کر ان سے درخواست کی ہے کہ وہ ملک کے وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کو طویل عرصے سے چل رہے بدعنوانی کے مقدمے میں معاف کر دیں۔ اس واقعہ کے بارے میں ملک میں امریکی اثر و رسوخ پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ نیتن یاہو کے معاملے میں مداخلت کرنے کی یہ ٹرمپ کی تازہ ترین کوشش تھی، جس سے اسرائیل کے داخلی معاملات میں امریکہ کے غیر مناسب دخل پر اب سوال اٹھ رہے ہیں۔ ٹرمپ نے پچھلے ماہ اسرائیل کی پارلیمنٹ میں اپنے خطاب کے دوران بھی نیتن یاہو کو معاف کرنے کی درخواست کی تھی۔ وہ غزہ میں جنگ کے لیے اپنی جنگ بندی منصوبہ بندی کے سلسلے میں اسرائیل کی مختصر دورے پر گئے تھے۔
اسرائیل کے صدر آئزک ہرزوگ کو بدھ کو لکھے گئے خط میں ٹرمپ نے بدعنوانی کے معاملے کو "سیاسی اور غیر مناسب مقدمہ" قرار دیا۔ ٹرمپ نے خط میں لکھا کہ ' جیسے کہ عظیم اسرائیل ملک اور شاندار یہودی لوگ پچھلے تین سال کے انتہائی مشکل وقت سے آگے بڑھ رہے ہیں، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کو مکمل طور پر معاف کر دیں، جو جنگ کے وقت ایک مضبوط اور فیصلہ کن وزیر اعظم رہے ہیں، اور اب اسرائیل کو امن کے وقت کی طرف لے جا رہے ہیں۔ اسرائیل کی تاریخ میں نیتن یاہو واحد ایسے وزیر اعظم ہیں، جن کے خلاف مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ ان کے خلاف تین مختلف مقدمات میں دھوکہ دہی، خیانت اور رشوت لینے کا الزام ہے۔
ان پر امیر سیاسی حمایتیوں کے ساتھ جانبداری کرنے کا بھی الزام ہے۔ نیتن یاہو نے ان الزامات کو مسترد کیا اور ٹرمپ جیسی زبان استعمال کرتے ہوئے اسے میڈیا، پولیس اور عدلیہ کی جانب سے بنایا گیا ایک سازشی منصوبہ قرار دیا۔ نیتن یاہو نے 'ایکس' پر جمعرات کی دیر رات ایک پوسٹ میں ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا، حالانکہ یہ واضح طور پر معافی کی درخواست سے متعلق نہیں تھی۔ انہوں نے لکھا کہ صدر ٹرمپ، آپ کی شاندار حمایت کے لیے شکریہ۔ ہمیشہ کی طرح، آپ براہ راست معاملے کی طرف آتے ہیں اور جیسا ہے ویسا ہی بیان کرتے ہیں۔ میں سلامتی کو مضبوط بنانے اور امن کو فروغ دینے کے لیے ہماری شراکت داری جاری رکھنے کے لئے پرجوش ہوں۔
نیتن یاہو کئی بار گواہی دے چکے ہیں، لیکن اکتوبر 2023 میں حماس کے دہشت گرد حملوں کے بعد شروع ہونے والی جنگ اور انتشار سے نمٹنے کی وجہ سے مقدمے میں بار بار تاخیر ہوئی ہے۔ اسرائیل میں صدر کا منصب کافی حد تک رسمی ہے، لیکن صدر کے پاس معافی دینے کا اختیار موجود ہے۔ صدر ہرزوگ نے خط موصول ہونے کی تصدیق کی، لیکن کہا کہ معافی مانگنے والے کسی بھی شخص کو باقاعدہ درخواست پیش کرنی ہوگی۔ انہوں نے یہ بتانے سے انکار کیا کہ وہ نیتن یاہو کی درخواست پر کیا ردعمل دیں گے۔ اسرائیل کے صدر نے عوامی طور پر صرف یہ کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ یہ مقدمہ ملک کے لیے ایک خلفشار اور تقسیم کا سبب رہا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ نیتن یاہو اور مدعی فریق کسی سمجھوتے پر پہنچیں۔