National News

شارٹس، لیگنگس پر پابندی! بنگلہ دیش میں ''طالبانی'' ڈریس کوڈ پربوال، عوام کے غصے کے آگے حکومت کو جھکنا پڑا

شارٹس، لیگنگس پر پابندی! بنگلہ دیش میں ''طالبانی'' ڈریس کوڈ پربوال، عوام کے غصے کے آگے حکومت کو جھکنا پڑا

انٹرنیشنل ڈیسک: بنگلہ دیش میں کپڑوں کو لے کر بڑا تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔ یہ اس وقت شروع ہوا جب بنگلہ دیش کے سینٹرل بینک نے اپنے ملازمین خصوصاً خواتین ملازمین کے لیے ایک نیا اور متنازع ڈریس کوڈ جاری کیا۔ لوگوں نے اس حکم کا موازنہ افغانستان کے طالبان کے سخت قوانین سے کیا جس کے بعد سوشل میڈیا پر کافی ہنگامہ ہوا۔ زبردست احتجاج کے پیش نظر بینک کو صرف تین دن میں اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔
کیا تھا یہ متنازعہ حکم ؟
بنگلہ دیش کے سینٹرل بینک نے ایک سرکلر جاری کیا تھا اور ہدایت کی تھی کہ دفتر میں کیا پہننا چاہیے اور کیا نہیں پہننا چاہیے:
خواتین کے لیے قواعد: خواتین ملازمین سے کہا گیا کہ وہ ساڑھی، سلوار قمیض یا کوئی اور "مہذب اور پیشہ ورانہ" لباس پہن کر آنے کے لئے کہا گیا تھا۔ انہیں سادہ سر پر اسکارف یا حجاب پہننے کو کہا تھا۔ لیکن چھوٹی بازو والے کپڑے (آستین کے بغیر)، چھوٹے کپڑے اور ، لیگنگس پہننے کی سختی سے ممانعت تھی۔
 مردوں کے لیے قواعد: مرد ملازمین کو رسمی شرٹ، پتلون اور جوتے پہننے کی ہدایت کی گئی تھی۔ جینز اور فینسی پاجامہ پہننا منع تھا۔ بینک نے دعویٰ کیا کہ یہ قواعد ملک کے سماجی اصولوں کے مطابق بنائے گئے ہیں اور اگر ان پر عمل نہیں کیا گیا تو تادیبی کارروائی کی جائے گی۔
سوشل میڈیا پر مچا ہنگامہ
یہ حکم آتے ہی سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک اور ٹوئٹر پر ایک طوفان برپا ہوگیا۔ لوگوں نے بینک انتظامیہ سے ”مہذب اور پیشہ ورانہ“ لباس کی تعریف کے بارے میں سوال کرنا شروع کردیئے۔ بہت سے لوگوں نے اسے خواتین کی آزادی پر براہ راست حملہ بتایا۔
ایک صارف نے لکھا کہ یہ اسلامی ایجنڈا ہے، جب کہ بینک کے گورنر کی بیٹی خود اپنی پسند کے کپڑے پہنتی ہے۔ لوگوں نے اس ڈریس کوڈ کا موازنہ افغانستان میں طالبان کے احکامات سے کیا، جہاں خواتین کو سر سے پاو¿ں تک ڈھانپ کر باہر جانا پڑتا ہے۔ ایک صارف نے تو اسے "نئے طالبان دور میں ایک تاناشاہ کا راج" بھی قرار دیا۔
حکومت کو جھکنا پڑا
ہر طرف سے تنقید اور بڑھتے ہوئے دباو کے بعد بنگلہ دیش بینک کو صرف تین دن میں گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ جمعرات کو بینک نے اس متنازعہ ہدایت کو واپس لے لیا۔ بینک کے ترجمان نے واضح کیا کہ یہ سرکلر محض ایک مشورہ تھا۔ حجاب یا برقع پہننے کے لئے کوئی زبردستی نہیں کی گئی تھی۔بنگلہ دیش مہیلا پریشد کی صدر فوزیہ مسلم نے کہا کہ بنگلہ دیش میں اس طرح کی ہدایت پہلی بار دیکھی گئی ہے۔ یہ ایک خاص قسم کا ثقافتی ماحول بنانے کی کوشش ہے۔
 



Comments


Scroll to Top