National News

امر شہید راو تلارام کے بلیدان کی بہادری کی کہانی

امر شہید راو تلارام کے بلیدان کی بہادری کی کہانی

انگلستان کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے تجارت کے نام پر پورے بھارت میں اپنے پیر جما لئے تھے۔ انگریزوں کی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کامیاب ہو چکی تھی۔ ایک ایک کر کے بھارت کے تمام حصے انگریزوں کے چنگل میں پھنستے جا رہے تھے۔ غریب عوام کوانگریزوں کے ہاتھوں بری طرح سے پیسا جارہا تھا۔ انہیں درندگی کولیکر دیسی فوجیوں اور آزادی پسند عوام کے ذہنوں میں آزادی روپی جذبے کا شعلہ پیدا ہوا۔
 انگریزوں کے جبر سے آزادی حاصل کرنے کے لئے 1857میں جدوجہد آزادی کی چنگاری پھیل اٹھی۔ اس علاقے میں اس انقلاب کی قیادت ویر کیسری امر بلیدانی راو تلارام نے کی۔ راو تلارام کی پیدائش یکم دسمبر 1825کو ہوئی تھی۔ وہ ریواڑی کے بااثر ریاستی خاندان کے ممتاز نےتا اور نمائندے تھے۔ راوتلارام ایک ماہر منتظم وسینانی تھے۔ ان کی رعایا ان کی انصاف پسندی، حب الوطنی اور موثر انتظامیہ سے بہت خوش تھی۔

راوتلارام انگریزوں کی حکمرانی کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ 1857 میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی۔ ان کے ایک بھائی راو کرشن گوپال نے ان کی پریرنا سے10 مئی 1857 کو میرٹھ میں فوجی بغاوت کی باگ دوڑ سنبھالی اور انگریزوں کا صفاےا کرکے دہلی میں بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو بھارت کو آزاد حکمراں اعلان کیا ۔
 ادھر راو¿ تلارام نے بھارت کی غلامی کی زنجیریں توڑ کر ضلع گوروگرام اور مہیندر گڑھ کے علاقے کو غیر ملکی سلطنت سے آزاد کردیا۔ کرنل فورٹ اور انگریزی فوج کو گوروگرام سے ماربھگا یا ۔
 ریواڑی کے قریب انگرےزوں کی چھاونی کا صفاےا کردیا اور ایک بڑی فوج بھرتی کرکے ملک کی آزادی کے لئے بے پناہ کوشش کی۔ گوکل گڑھ میں توپیں ڈھالنے کا کارخانہ اور ٹکسال قائم کرکے دہلی اور آس پاس کے علاقوں میں دیش بھگت نےتاوں کو ہر طرح کی مدد دی۔ انگریزوں کے ساتھ ان کی آخری لڑائی نارنول سے 3میل دور نصیب پور کے تاریخی میدان میں 16نومبر 1857 کو ہوئی ۔ راو تلارام کی قیادت میں ہریانہ اور راجستھان کے علاقوں میں دیش بھگت سورماو¿ں نے جمع ہو کر آخری لی اور پوری طاقت کے ساتھ لڑے ۔
 انگریزوں کے پاس زیادہ فوج، بھاری گولہ بارود و توپیں ہوتے ہوئے دیش بھگتوں کے سامنے ان کے قدم نہیں ٹک سکے ۔ پہلے ہی روز کی جنگ میں کرنل جیرارڈ اپنے بہت سے فوجیوں سمیت راو¿ تلارام کے ہاتھوں مارے گئے۔اس جنگ میں تقریباً پانچ ہزار فوجی شہید ہوگئے تھے اور آج بھی یہاں بارش ہوتی ہے تو نصیب پور کے میدان کی مٹی لال ہو جاتی ہے۔ کرنل جیرارڈ وانگریزی فوجی مارے جانے کے بعد دیش دروہی پنجاب و راجستھان کی ریاستیں انگریزوں کی مدد کے لئے پہنچ گئیں اور آزادی کے دیوانوں کو گھیر لیا۔
 ایک ایک دیش بھگت کئی کئی دشمنوں کو مار کر بلیدان ہوگےا ۔ راو تلارام کو نازک حالت میں میدان جنگ سے اٹھا کر ان کے ساتھیوں نے محفوظ مقام پر پہنچا یا۔ راو کرشن گوپال اور راو رام لال جیسے یودھا بھی اس جنگ میں کام آئے ۔ اگرچہ اس لڑائی میں جےت انگریزوں کے ہاتھ آئی پھر بھی انگریزی فوج کو راو تلارام اور ان کے ساتھیوں کی حیرت انگیز ہمت اور بہادری کو دیکھ کر دانتوں تلے انگلی دبانی پڑی ۔ راوصاحب ہمت ہارنے والے سینانی نہیں تھے۔ انہوں نے اپنی بچی کھچی فوج کو پھر سے منظم کیا اور ہزاروں مشکلات کے باوجود انگریزی فوجوں کو چکمہ دے کر بھارت کی آزادی کی لڑائی جاری رکھنے کیلئے کالپی میں تاتیا ٹوپے اور نانا صاحب سے جا ملے ۔ 
اوم پرکاش یادو


 



Comments


Scroll to Top