نئی دہلی: شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ خاتون مظاہرین کے جوش و خروش، ہمت اورعزم میں ہندو شدت پسند تنظیمو ں کی دھمکی، گولی چلنے اور شاہین باغ سریتاوہار میں ان تنظیموں کی موجودگی کے باوجود کوئی کمی نہیں آئی ہے اور پوری شدت اور دم خم کے ساتھ خواتین دٹی ہوئی ہیں۔
شاہین باغ میں اس وقت خاتون پرامن طریقے سے دھرنا پر بیٹھی ہوئی ہیں لیکن سریتاوہار کی طرف سے پولیس کے ساتھ پچاس کے آس پاس ہندوشدت پسندوں کے رکن کھڑے ہیں۔ ابھی ان کی طرف سے کوئی ایسی بات سامنے نہیں آئی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پولیس کے ساتھ وہ لوگ وہاں کیا کررہے ہیں۔ موقع پر موجودہ عینی شاہدین نے بتایا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندو شدت پسند تنظیموں کو پولیس کی حمایت حاصل ہے ورنہ وہ لوگ یہاں آنے کی ہمت نہیں کرتے۔
عینی شاہدین اور مظاہرین کا کہنا ہے کہ کئی روز سے مسلسل دھمکی دی جارہی تھی اور کل ہی ہندو شدت پسند تنظیموں سے منسلک ارکان نے شاہین باغ کو خالی کرانے اور اس سے نمٹنے کی دھمکی دی تھی اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے وہ لوگ آج یہاں آبھی گئے ہیں۔ انہوں نے ایسے لوگوں کوانتظامیہ پر بڑھاوا دینے کا الزام لگاتے ہوئے کہاکہ مرکزی وزائے رکن پارلیمنٹ اور اراکین اسمبلی کھلے عام گولی مارنے کی بات کر رہے ہیں لیکن پولیس، انتظامیہ، عدلیہ اور قومی انسانی حقوق کمیشن یہاں تک کے اقلیتی کمیشن بھی اس پر کوئی نوٹس نہیں لے رہا ہے جس کی وجہ سے ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔
مظاہرین نے انتظامیہ پر امتیاز برتنے کا الزام لگاتے ہوئے کہاکہ اگر کوئی مسلمان گولی مارنے کی بات کرتا تو ان پر درجن بھر دفعات لگانے کے ساتھ جیل میں بھیج دیا گیا ہوتا اور پورے ملک میں ان کے خلاف نفرت کا ماحول تیار کیا جارہا ہوتا لیکن اس معاملے میں کوئی کارروائی نہیں ہورہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں فائرنگ کرنے والے کو ایک ہندو تنظیم نے انعام دینے کا اعلان کیا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ پولیس اور عدلیہ کیا کارروائی کرتی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ شاہین باغ میں کپل گوجر نے فائرنگ کرکے دہشت پیدا کرنے کی کوشش کی تھی یہ انہی ذہنیت کی پیداوار ہے جو کچھ مرکزی وزراء اور کچھ ارکان پارلیمنٹ تیار کر رہے ہیں۔