انٹرنیشنل ڈیسک: سعودی عرب، جسے اب تک ایک سخت اسلامی اور ‘ڈرائی’ ملک سمجھا جاتا تھا، آہستہ آہستہ اپنے سماجی قواعد و ضوابط میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لا رہا ہے۔ اسی سلسلے میں شراب خریدنے کے قوانین کو بھی نرم کیا گیا ہے۔ نئے قوانین کے مطابق، پریمیئم ریزیڈنسی رکھنے والے غیر مسلم تارکینِ وطن اب ریاض کی ا±س دکان سے شراب خرید سکیں گے، جہاں پہلے صرف غیر ملکی سفارت کاروں کو خریداری کی اجازت تھی۔ اگرچہ حکومت نے کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے، لیکن خریداری کر چکے گاہکوں نے اس کی تصدیق کی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ قدم اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سعودی اب آہستہ آہستہ شراب کی فروخت کو باضابطہ بنانے کی سمت بڑھ رہا ہے۔
کیوں بدلی پالیسی
سعودی عرب وڑن۔2030 کے تحت سیاحت کو تیزی سے فروغ دینا چاہتا ہے۔ دبئی، بحرین اور ابوظہبی جیسے خلیجی ممالک شراب اور کھلے طرزِ زندگی کی وجہ سے زیادہ دلکش سمجھے جاتے ہیں، جبکہ سعودی عرب میں اب بھی شراب پر سخت پابندیاں ہیں۔ اس فرق کو کم کرنے کے لیے گزشتہ سال ریاض میں پہلی شراب کی دکان کھولی گئی تھی جو اب تک صرف سفارت کاروں کے لیے تھی۔ اب وہی آو¿ٹ لیٹ محدود تعداد میں غیر مسلم پریمیئم ریزیڈنسی رکھنے والوں کے لیے بھی کھول دیا گیا ہے۔
کون خرید سکے گا
سعودی عرب نے 2019 میں پریمیئم ریزیڈنسی پروگرام شروع کیا تھا، تاکہ اعلیٰ آمدنی والے غیر ملکی سرمایہ کار اور خصوصی مہارت رکھنے والے پیشہ ور ملک میں آ سکیں اور طویل مدت تک قیام کر سکیں۔ اس کے لیے 80,000 ریال (21,000 ڈالر) سے زیادہ ماہانہ آمدنی یا خصوصی پیشہ ورانہ اہلیت ضروری ہے۔ ماہرین کے مطابق، صرف اسی مخصوص طبقے کو شراب کی اجازت دے کر سعودی ایک کنٹرول شدہ اور حکمتِ عملی پر مبنی تبدیلی اپنا رہا ہے جو بین الاقوامی ٹیلنٹ اور سرمایہ کاری دونوں کو اپنی جانب راغب کرے گا۔