انٹرنیشنل ڈیسک : کشیدگی کی بڑھتی ہوئی گرمی کے درمیان ایک غیر متوقع اور چونکا دینے والی پیش رفت میں، پاکستان کے فوجی حکام نے بالآخر 2019 میں پلوامہ میں 40 نیم فوجی اہلکاروں کی ہلاکت میں اپنے براہ راست کردار کا اعتراف کر لیا ہے۔ پاکستان ایئر فورس (PAF) کے ڈائریکٹر جنرل تعلقات عامہ ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد نے جمعہ کو ایک سنسنی خیز پریس کانفرنس کے دوران یہ غیر معمولی اعتراف کیا۔ انہوں نے فخریہ انداز میں کہا کہ پلوامہ دہشت گردانہ حملہ پاک فوج کی تزویراتی صلاحیتوں کی بہترین مثال ہے۔ یہ قبولنامہ برسوں کی مسلسل تردید اور غیر ملکی نامہ نگاروں سمیت درجنوں میڈیا والوں کے سامنے آیا، جس نے پوری دنیا کو چونکا دیا۔
اس اعتراف کے ساتھ اورنگزیب احمد نے نہ صرف پاکستان کی جانب سے پلوامہ حملے پر اوڑھی گئی بے شرمی کی چادر کو تار تار کیا ، ببلکہ 22 اپریل کے پہلگام حملے میں بھی پاکستان کے ملوث ہونے کی پول کھول دی ہے ۔ یہ غیر معمولی اعتراف پہلگام دہشت گردانہ حملے میں کلین چٹ کے پاکستان کے جھوٹے دعوؤں اور اس کے ملوث ہونے کے بارے میں ہندوستان سے ثبوت مانگنے کے اس کے منافقانہ موقف کے بالکل برعکس ہے۔
ائیر وائس مارشل اورنگزیب احمد نے جمعہ کو پراعتماد انداز میں کہا کہ " اگرپاکستان کی فضائی حدود، زمین، پانی یا اس کے عوام کے لیے کوئی خطرہ ہو تو اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا، اسے کسی قیمت پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہم اپنی قوم کے سامنے جوابدہ ہیں۔ پاکستانی عوام کو اپنی مسلح افواج پر فخر اور غیر متزلزل یقین ہے جسے ہم ہر قیمت پر برقرار رکھنے کے لیے دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کی کوشش کریں گے۔ہم نے اپنی حکمت عملی کے ذریعہ پلوامہ میں یہ پیغام دینے کی کوشش کی تھی اور اب ہم نے اپنی آپریشنل صلاحیت اور اسٹریٹجک صلاحیت کا بھی شاندار مظاہرہ کیا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ انہیں اس پر دھیان دینا چاہیے۔اس اہم پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری اور بحریہ کے ترجمان بھی ان کے ہمراہ تھے۔
بتادیں کہ لیفٹیننٹ جنرل چودھری بدنام زمانہ ایٹمی سائنسدان سلطان بشیر الدین محمود کے بیٹے ہیں جنہوں نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن سے ملاقات کی تھی اور جوہری ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی دہشت گردوں کے حوالے کرنے کی مذموم کوشش کی تھی۔ ان کا نام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی القاعدہ پابندیوں کی کمیٹی کی دہشت گردوں کی فہرست میں بھی شامل ہے۔
قابل ذکر ہے کہ پاکستان نے پلوامہ حملے میں ملوث ہونے سے مسلسل انکار کیا تھا حالانکہ جیش محمد کے ایک خودکش بمبار نے اس بزدلانہ حملے میں سی آر پی ایف کے 40 بہادر جوانوں کو شہید کر دیا تھا۔ پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے اس حملے کو "گہری تشویش کا معاملہ" قرار دیا تھا لیکن اپنی فوج کے کسی بھی کردار کو واضح طور پر مسترد کر دیا تھا۔
پاکستان نے ہمیشہ ہندوستان سے ثبوت مانگے ہیں اور اس کے الزامات کی تردید کی ہے حالانکہ دہشت گرد گروپ جیش محمد نے کھلے عام حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ حملہ آور عادل احمد ڈار کو جیش محمد سے جوڑنے کے ہندوستان کے ڈوزیئر کے باوجود پاکستان کی تردید جاری رہی، حالانکہ جیش کا ہیڈ کوارٹر بہاولپور میں سبحان اللہ کیمپ تھا، جسے 'آپریشن سندور' کے دوران ہندوستانی فوج کے اسٹیک حملوں سے ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا تھا۔
پلوامہ حملے کے جواب میں، ہندوستان نے پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر (پی او کے)کے بالاکوٹ میں جیش کے دہشت گرد کیمپ پر ایک جرات مندانہ فضائی حملہ کیا تھا۔ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر اس جوابی کارروائی میں ہندوستانی فضائیہ کے 12 میراج 2000 لڑاکا طیاروں نے جیش کے سب سے بڑے تربیتی کیمپ کو نشانہ بنایا تھا۔
اس کارروائی پر پاکستان کے ردعمل سے دونوں ممالک کے درمیان فضائی جنگ ہوئی جس میں ہندوستانی فائٹر پائلٹ ابھینندن وردھمان کو پاکستانی فوج نے پکڑ لیا۔ تاہم دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے پیش نظر ونگ کمانڈر ابھینندن کو پاکستان نے چند روز بعد رہا کر دیا تھا۔
اگرچہ حکومت پاکستان نے کبھی بھی پلوامہ حملے میں اپنے ملوث ہونے کا باضابطہ طور پر اعتراف نہیں کیا، لیکن ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد نے کیمروں کی چکاچوند کے سامنے غیر متوقع بہادری کا مظاہرہ کیا اور اس نے وہ کر دکھایا جو برسوں سے سفارتی دبا ؤ سے بھی نہیں ہو سکا تھا ۔ پاکستان نے بالآخر پلوامہ حملے میں اپنے گھناؤنے کردار کا اعتراف کر ہی لیا ۔