National News

پاک عدالت کا ہائی پروفائل توہینِ مذہب معاملے میں چونکا دینے والا فیصلہ، مسلم خاتون کو موت کی سزا سے انکار، کیابری

پاک عدالت کا ہائی پروفائل توہینِ مذہب معاملے میں چونکا دینے والا فیصلہ، مسلم خاتون کو موت کی سزا سے انکار، کیابری

اسلام آباد: پاکستان میں ایک ہائی پروفائل توہینِ مذہب (Blasphemy) کیس میں موت کی سزا پانے والی مسلم خاتون انیکا عتیق کو لاہور ہائی کورٹ کی راولپنڈی بینچ نے بری کر دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ استغاثہ کے کیس میں سنگین قانونی اور طریقہ کار سے متعلق خامیاں تھیں۔ انیکا کو جنوری 2022 میں راولپنڈی میں واقع ایف آئی اے کی خصوصی عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے شکایت کنندہ حسنات فاروق کو توہینِ مذہب سے متعلق پیغامات بھیجے تھے۔ ایف آئی اے نے انہیں سال 2020 میں گرفتار کیا تھا۔ لیکن ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ جسٹس صداکت علی خان اور جسٹس چوہدری وحید نے قرار دیا کہ استغاثہ ان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا۔

انیکا کی پیروی کرنے والے وکیل سیف الملوک (جو آسیہ بی بی کے وکیل بھی رہ چکے ہیں) نے دلیل دی کہ ایف آئی اے کے سائبر کرائم وِنگ نے نہ تو فون کی فرانزک جانچ کی اور نہ ہی کوئی تکنیکی ثبوت پیش کیا۔ کیس درج ہونے میں بھی 10 دن کی تاخیر ہوئی تھی، اور مبینہ موبائل فون بھی انیکا کا نہیں بلکہ کسی اور عورت کا تھا، جسے کیس میں شریکِ ملزمہ تک نہیں بنایا گیا۔ جسٹس خان نے استغاثہ سے پوچھا جب ملزمہ کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت ہی نہیں تو اسے موت کی سزا کیسے دی جا سکتی ہے؟
عدالت نے ایف آئی اے کے قانونی طریقہ کار پر عمل نہ کرنے پر بھی سخت تبصرہ کیا اور کہا کہ تفتیشی ادارے خود قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق ملک میں توہینِ مذہب کے مقدمات میں 2022 کے بعد تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ 2021 میں جہاں صرف 9 کیس درج ہوئے تھے، وہیں 2024 تک یہ تعداد 475 سے تجاوز کر گئی۔ رپورٹ کے مطابق ان مقدمات کا استعمال زمین کے جھگڑوں، ذاتی دشمنیوں اور سوشل میڈیا بلیک میلنگ کے لیے بڑھتا جا رہا ہے۔



Comments


Scroll to Top