نئی دہلی/بنگلور:معاشرتی خرابیوں کو دور کرنے کے لئے مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعلیم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اقرا انٹرنیشنل سکول بنگلور کی بانی ڈائرکٹر نور عائشہ نے کہا کہ مسلمانوں کو لڑکیوں کی تعلیم پر بھی اتنی ہی اہمیت دینی چاہئے جتنی اہمیت وہ لڑکوں کی تعلیم پر دیتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ مسلم خواتین پر حملے، مسلم لڑکیوں کے ساتھ زیادتی اور مسلم نوجوانوں کو ہراساں کیا جانایہاں اس لئے بھی آسان ہوگیا ہے کہ کیوں کہ ہم تعلیم سے دور ہیں اپنے حقوق و اختیارات اتنے واقف نہیں ہیں جتنے ہمیں ہونے چاہئیں۔ اگر ہم اپنے حقوق کا دفاع کرنا سیکھ جائیں تو ہماری پریشانیاں کم ہوسکتی ہیں اور اس کا سب سے اہم ہتھیار تعلیم ہے، خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم۔ انہوں نے کہاکہ کسی بھی معاشرے کو بہتر بنانے کے لئے لڑکیوں کی تعلیم سے گہرا رشتہ ہے۔ کیوں کہ لڑکیاں اگر تعلیم یافتہ ہوتی ہیں تو نہ صرف پورا خاندان تعلیم یافتہ ہوتا ہے بلکہ اس سے معاشرہ بھی فیضیاب ہوتا ہے۔ اس لئے ہمیں لڑکیوں کی تعلیم پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے عالمی یوم بنات کے موقع کہا کہ آج لڑکیوں نے اپنی صلاحیت ثابت کردیا ہے کہ وہ نہ صرف امور خانہ داری میں ماہر ہیں بلکہ ملک کے انتظام و انصرام بھی بہتر ڈھنگ سے چلاسکتی ہیں۔ آج لڑکیاں زندگی کے تمام شعبہ حیات میں چھائی ہوئی ہیں۔اس لئے انہیں نظر انداز کرنا قوم کی تعمیر و تشکیل کو نظر انداز کرنا ہے۔انہوں نے کہاکہ اسی طرح مسلم لڑکیوں کو بھی زندگی کے ہر شعبے میں چھا جانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیم شرح دیگر برادران وطن کے مقابلے میں کم ہے۔ مسلمانوں میں ڈراپ آؤٹ بھی بہت زیادہ ہے۔ لڑکیوں کا ڈراپ 70فیصد تھا جس میں کچھ کمی آئی ہے۔
کارڈف سے بزنس گریجویٹ محترمہ نور عائشہ نے اعدد و شمار کے حوالے سے کہاکہ مسلمانوں میں میٹرک کرنے والے 17فیصد ہیں۔ گریجویٹ کی سطح تک پہنچتے پہنچتے یہ شرح چار فیصد تک رہ جاتی ہے۔ توظاہر سی بات ہے کہ جس قوم یہ صورت حال ہو وہ قوم کیسے ترقی کرسکتی ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ نہ صرف اپنے بچوں کو سکول و مدارس بھیجیں بلکہ تعلیمی ادارے بھی قائم کریں۔ جنوبی ہند کے مسلمانوں نے اس سلسلے میں کچھ اقدامات کئے ہیں جس کے بہتر بتائج برآمد ہورہے ہیں لیکن شمالی ہند کے مسلمان اس معاملے کافی پیچھے ہیں۔ انہیں سمت میں بہت آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہاکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تین سے چھ سال کی عمر کے ملک کے سات کروڑ 40 لاکھ بچوں میں سے دو کروڑ پری سکول کی تعلیم سے محروم ہیں۔ان میں زیادہ تر طالب علم غریب ترین خاندانوں اور معمولی طبقوں سے آتے ہیں. ملک میں اقلیتی طبقوں میں اس عمر کے بدھ مت اور نوبوددھ طبقوں کے 18.2 فیصد، جین طبقہ کے 12.4 فیصد، سکھ طبقہ کے 23.3 فیصد، عیسائی کمیونٹی کے 25.6 فیصد اور مسلم طبقہ کے 34 فیصد بچے پری سکول کی تعلیم سے محروم ہیں۔وہیں، ہندو خاندان کے بھی 25.9 فیصد بچے پری اسکول کی تعلیم نہیں پاتے۔