National News

ستمبر کی جنریشن زیڈبغاوت پر بڑا انکشاف: نیپال کی سکیورٹی ایجنسیوں کا کالا چہرہ بے نقاب، ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ نے مچا یا بھونچال

ستمبر کی جنریشن زیڈبغاوت پر بڑا انکشاف: نیپال کی سکیورٹی ایجنسیوں کا کالا چہرہ بے نقاب، ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ نے مچا یا بھونچال

انٹر نیشنل ڈیسک: نیپال میں ستمبر میں ہونے والی جنریشن زیڈ بغاوت کے حوالے سے بڑا انکشاف سامنے آیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ ایچ آر ڈبلیوکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیپال کی سکیورٹی ایجنسیوں نے طلباء اور نوجوانوں پر غیر مناسب، انتہائی اور مہلک قوت کا استعمال کیا، جس کی وجہ سے صرف کٹھمنڈو میں 17 افراد کی موت ہوئی۔ ایچ آر ڈبلیو نے عبوری حکومت سے کہا ہے کہ یہ صرف تشدد نہیں، بلکہ انسانی حقوق کی بڑی خلاف ورزی ہے اور ذمہ دار حکام کے خلاف کارروائی لازمی ہے۔ نیپال میں ستمبر 2025 میں ہونے والیجنریشن زیڈ تحریک کے بارے میں ہیومن رائٹس واچ ( ایچ آر ڈبلیو) نے ایک بڑی اور سنجیدہ رپورٹ جاری کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، 8 ستمبر کو دارالحکومت کٹھمنڈو میں نوجوانوں کے مظاہرے کو روکنے کے لیے پولیس نے تین گھنٹے مسلسل فائرنگ کی، جس میں 17 افراد جان بحق ہوئے۔ یہ تحریک بدعنوانی اور سوشل میڈیا پابندی کے خلاف شروع ہوئی تھی۔ نوجوانوں نے پارلیمنٹ ہاو¿س کے باہر احتجاج کیا، جس کے بعد پولیس نے بھیڑ پر براہ راست سر، سینہ اور پیٹ پر گولیاں چلائیں۔ ایچ آر ڈبلیو کی جانچ میں کہا گیا کہ پولیس کو ایسی کوئی صورتحال نہیں ملی جس میں مہلک طاقت کا استعمال ضروری تھا۔ 9 ستمبر کو تشدد مزید بڑھ گیا۔ کئی جگہ بھیڑ نے پولیس اسٹیشنوں پر حملہ کیا، سرکاری عمارتوں میں آگ لگائی، رہنماوں اور صحافیوں پر حملے کیے۔
اس دن کے تشدد میں مجموعی طور پر 76 افراد ہلاک ہوئے، جن میں تین پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔ اسی انتشار کے درمیان سابق وزیراعظم کے پی شرما اولی نے اسی شام استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد سابق چیف جسٹس سوشیلا کارکی کی قیادت میں عبوری حکومت قائم ہوئی، جس نے ایک اعلیٰ سطحی جانچ کمیٹی تشکیل دی۔ ایچ آر ڈبلیو کی ٹیم نے 52 گواہوں، صحافیوں، ڈاکٹروں اور متاثرین سے بات کی۔ تصاویر، ویڈیوز اور مختلف جگہوں پر جا کر کی گئی جانچ میں کئی سنجیدہ حقائق سامنے آئے۔
 ایچ آر ڈبلیو کے اہم انکشافات:
* پولیس نے انتباہ دیے بغیر براہ راست گولیاں چلائیں۔
* بھیڑ میں شامل 33 افراد کو حراست میں لے کر مارا اور دھمکایا گیا۔
* 47 لاشیں کٹھمنڈو کے ایک ہی مردہ گھر پہنچی، جن میں سے 35 کی موت ہائی-ویلاسٹی گن شاٹ سے ہوئی۔
* پولیس 9 ستمبر کو کئی جگہ تشدد روکنے میں ناکام رہی۔
* ہسپتال کے اندر بھی پولیس نے لاٹھی چلائیں، ایک میڈیکل اسٹاف زخمی ہوا۔
* دونوں دنوں میں ایمبولینس پر حملے ہوئے، صحافی زخمی ہوئے، میڈیا دفاتر پر بھیڑ نے حملہ کیا۔
* ایک ریٹائرڈ پولیس افسر نے ایچ آر ڈبلیو کو بتایا کہ نیپال پولیس نے بھیڑ کو منتشر کرنے کے معیار کی پیروی نہیں کی۔ اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق، جان سے مارنے والی گولی صرف اس وقت چلائی جا سکتی ہے جب سامنے کسی کی جان کو فوری خطرہ ہو، جو اس معاملے میں نظر نہیں آیا۔
 ایچ آر ڈبلیو نے کہا کہ نیپال کی حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ گزشتہ کئی سالوں سے جاری سزا سے بچنے کی صورتحال (impunity) ہی ان واقعات کی بڑی وجہ ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ 10 نومبر تک پولیس نے 423 افراد کو گرفتار کیا، لیکن 8 ستمبر کو گولی چلانے والے پولیس افسران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ ایچ آر ڈبلیو نے عبوری حکومت سے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ: جانچ آزاد، شفاف اور وقت پر مکمل کی جائے۔ قصوروار چاہے پولیس افسر ہوں یا سیاسی لوگ، سب کے خلاف کارروائی کی جائے۔ بدعنوانی، بے روزگاری اور حقوق کی کمی جو نوجوان تحریک کی وجوہات بنی، انہیں ایمانداری سے حل کیا جائے۔



Comments


Scroll to Top