انٹر نیشنل ڈیسک: یورپ کے اعلیٰ سفارتکاروں نے کہا ہے کہ یوکرین پر روس کے حملے کو روکنے کی کسی بھی کوشش کے سلسلے میں یوکرین اور یورپ سے مشاورت ضروری ہے۔ انہوں نے یہ بات ایسے وقت میں کہی ہے جب خبریں آ رہی ہیں کہ امریکہ اور روس نے ایک امن منصوبے پر غور کیا ہے۔ خفیہ امن منصوبے کی بحث نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی پر دباو بڑھا دیا ہے، جو روس کی بڑی فوج کے خلاف اپنے ملک کی حفاظت کی قیادت کر رہے ہیں۔ وہ یورپی رہنماوں سے ملاقات کر رہے ہیں تاکہ یوکرین کے لیے ان کی حمایت جاری رہے۔
اس کے علاوہ زیلنسکی توانائی کے شعبے سے متعلق بڑے بدعنوانی کے کیس کا سامنا کر رہے ہیں، جس نے عوام میں غصہ پیدا کر دیا ہے۔ یورپی یونین (EU) کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کایا کالاس نے برسلز میں 27 ممالک والے EU کی میٹنگ کے آغاز میں کہا، “کسی بھی منصوبے کی کامیابی کے لیے، اس میں یوکرینیوں اور یورپیوں کی رضامندی ضروری ہے۔” EU ممالک کے نمائندوں نے بھی اس بات سے اتفاق کیا۔
جرمن وزیر خارجہ یوہان وادی فول نے کہا کہ “جنگ بندی کے بارے میں کسی بھی قسم کی بات چیت، یا مستقبل میں یوکرین کی پرامن ترقی سے متعلق مذاکرات، صرف یوکرین کے ساتھ ہی کیے جا سکتے ہے۔ اور اس میں یورپ کو بھی شامل ہونا چاہیے۔
ڈنمارک کے وزیر خارجہ لارس لوکے راسموسین نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ آیا اس تجویز کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور روسی رہنما ولادیمیر پوتن کی حمایت حاصل ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا، “سب سے پہلے، ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ کیا واقعی یہ منصوبہ بڑے ممالک کے رہنماو¿ں نے بنایا ہے یا نہیں۔ میں نے تمام قیاس آرائیاں سنی ہیں، لیکن ہمیں حقیقت میں یہ سمجھنا ہوگا کہ حقیقت کیا ہے اور کیا نہیں۔”
یہ واضح نہیں تھا کہ وزیر خارجہ کو اس امن منصوبے کے بارے میں علم ہے یا نہیں، جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اسے امریکہ اور روس کے نمائندوں نے تیار کیا ہے۔ اس منصوبے میں یوکرین کو کچھ علاقوں کو چھوڑنے کے لیے مجبور کرنے کی تجویز شامل ہے۔
تاہم زیلنسکی نے اس تجویز کو پہلے ہی رد کر دیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بدھ کی دیر رات سوشل پلیٹ فارم 'X' پر کہا تھا کہ امریکی اہلکار “ایک مستقل امن معاہدے پر غور کر رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔” انہوں نے کہا کہ اس کے لیے “دونوں فریقوں کو مشکل لیکن ضروری معاہدے کرنے ہوں گے۔
روس کی حکومت کے ترجمان دمتری پیسکوف نے جمعرات کو کہا کہ یوکرین کی جنگ ختم کرنے کے لیے فی الحال امریکہ سے کوئی بات چیت نہیں ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا، “کچھ رابطے ضرور ہوئے ہیں، لیکن انہیں حقیقی مشاورت نہیں کہا جا سکتا۔