کٹھمنڈو: نیپال میں ستمبر کے آغاز میں ہونے والے جنریشن-زی تحریک کے دوران ہونے والی ہلاکتوں اور وسیع پیمانے پر ہونے والے تشدد کی جانچ کر رہے کمیشن کے سامنے پیر کو سابق وزیر داخلہ رامیش لیکھک پیش ہوئے۔ انہوں نے واضح کیا کہ انہوں نے مظاہرین پر فائر کرنے کا کوئی تحریری یا زبانی حکم نہیں دیا تھا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 8 اور 9 ستمبر کو ہونے والی اس تحریک میں 77 افراد ہلاک ہوئے، جبکہ 84 ارب نیپالی روپے سے زیادہ کی عوامی اور نجی جائیداد کو نقصان پہنچا۔ لیکھک ا±س وقت کے کے پی شرما اولی کی قیادت والی حکومت میں وزیر داخلہ تھے اور ان پر شدید طاقت استعمال کرنے کی اجازت دینے کے الزامات لگے ہیں۔
لیکھک نے جانچ کمیشن کو دیے گئے تحریری بیان میں کہا،کسی بھی قانون میں وزیر داخلہ کو طاقت استعمال کرنے کے احکامات دینے کا اختیار نہیں دیا گیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ تحریک سے ایک دن قبل انہوں نے سکیورٹی ایجنسیوں کو صفر جانی نقصان کو یقینی بنانے اور کسی بھی جان لیوا صورتحال سے بچنے کی ہدایات دی تھیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 7 ستمبر کو ہونے والی مرکزی سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ میں شدید طاقت کے استعمال کا کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا تھا۔ لیکھک نے تحریک کے پرتشدد ہونے کے پیچھے کچھ خودغرض گروہوں کی مداخلت کو ذمہ دار ٹھہرایا اور اسے نوجوانوں کی پرامن تحریک کو ہائی جیک کرنے کی سازش قرار دیا۔
جنریشن-جی تحریک کے دوران سنگھ دربار، سپریم کورٹ، سرکاری دفاتر، پولیس تھانے، سیاسی رہنماو¿ں کے گھر اور کاروباری اداروں کو آگ کے حوالے کیا گیا۔ پہلے دن پولیس کی فائرنگ میں مظاہرین کی ہلاکت کے بعد دوسرے دن تشدد اور بڑھ گیا۔ لیکھک نے اسے قوم اور جمہوریت پر منصوبہ بند حملہ قرار دیتے ہوئے قصورواروں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ جبکہ، کمیشن سابق وزیر اعظم کے پی شرما اولی کا بھی بیان درج کرنے کی تیاری میں ہے، حالانکہ اولی نے جانچ کمیشن کو جانبدار قرار دیتے ہوئے گواہی دینے سے انکار کر دیا ہے۔