انٹرنیشنل ڈیسک: اسرائیل اور ایران کے درمیان 12 روز تک جاری رہنے والا خونریز تنازعہ بھلے تھم گیا ہو ، لیکن ایران کے اندر حالات اب مزید غیر مستحکم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو خدشہ ہے کہ اس جنگ کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پر احتجاج یا بغاوت کی لہر اٹھ سکتی ہے، جس کو روکنے کے لیے انہوں نے بڑے پیمانے پر کارروائی شروع کر دی ہے۔ 12 دن کی شدید لڑائی کے بعد اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی کا نفاذ ہو گیا ہے لیکن اس کے بعد ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای کے لیے ایک نیا چیلنج کھڑا ہو گیا ہے یعنی اندرونی بغاوت کا خدشہ۔ مانا جارہا ہے کہ اس جنگ نے ایران کے عوام بالخصوص اقلیتی برادریوں میں عدم اطمینان اور بغاوت کے امکانات کو بڑھا دیا ہے۔
ایرانی حکومت نے جنگ بندی کے فوری بعد سکیورٹی فورسز کو الرٹ کر دیا ہے۔ بہت سے شورش زدہ علاقوں خصوصا کرد اور بلوچ اکثریتی علاقوں میں فوج کی تعیناتی بڑھا دی گئی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ 705 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ کئی افراد پر اسرائیل کے لیے جاسوسی کا الزام لگایا گیا ہے۔ کئی علاقوں میں گھر گھر تلاشی اور کڑی نگرانی کی کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ ایرانی حکام کو خدشہ ہے کہ اسرائیلی حملوں کے بعد اسلامی حکومت کے خلاف عوامی غصہ پھوٹ سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ خامنہ ای نے پہلے ہی سخت اقدامات کرتے ہوئے کسی بھی ممکنہ بغاوت کو کچلنے کی حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔ ایران میں کرد اور بلوچ سنی مسلم اقلیتوں نے طویل عرصے سے حکمراں فارسی شیعہ حکومت کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ جنگ کے بعد سب سے زیادہ عدم اطمینان انہی برادریوں میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر گرفتاریاں انہی علاقوں سے کی گئی ہیں۔ انٹیلی جنس ایجنسیاں اور فوج ان علاقوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔