انٹرنیشنل ڈیسک: ایران اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان اب یہ تنازع اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) تک پہنچ گیا ہے۔ اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل نمائندے امیر سعید ایرانوی نے ہفتے کی رات گئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست کی۔ یہ مطالبہ امریکہ کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات اور فوجی اڈوں پر کیے گئے فضائی حملوں کے جواب میں کیا گیا ہے۔
سفیر ایرانوی نے سلامتی کونسل کے صدر کو بھیجے گئے ایک تفصیلی خط میں کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران امریکہ کے ان بلا اشتعال، پہلے سے منصوبہ بند اور جارحانہ فوجی حملوں کی شدید مذمت کرتا ہے۔ یہ حملے بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کے چارٹر اور علاقائی استحکام کے خلاف ہیں۔ انہوں نے خط میں زور دیا کہ امریکہ کو ان کارروائیوں کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے اور سلامتی کونسل اس معاملے میں 'تمام ضروری اقدامات' کرے تاکہ مستقبل میں ایسے اقدامات کو روکا جا سکے۔
ایران نے اپنے خط میں یہ بھی واضح کیا کہ امریکہ کی جانب سے یہ فوجی کارروائی اسرائیلی حملوں کے بعد کی گئی ہے جس میں 13 جون کو ایران کے بڑے جوہری مراکز اور فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ایران کے مطابق "یہ حملہ اس یکطرفہ فوجی کارروائی کا تسلسل ہے جو پہلے اسرائیل نے شروع کیا تھا۔ اب امریکہ کی مداخلت صورتحال کو مزید خطرناک بنا رہی ہے۔ اس پیش رفت کے بعد مشرق وسطیٰ میں تناو مزید گہرا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ حال ہی میں امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران کے تین بڑے ایٹمی مقامات پر کامیابی سے حملہ کیا۔ واشنگٹن نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ کارروائی ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنے کے لیے ضروری تھی اور یہ امریکہ کی قومی سلامتی کی پالیسی کا حصہ ہے۔
اگر یہ معاملہ سلامتی کونسل میں آتا ہے تو امریکہ کو روس اور چین جیسے دیگر مستقل ارکان کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آ سکتا ہے۔ خاص طور پر چین اور روس پہلے ہی ایران کے ساتھ اپنے تزویراتی تعلقات کی وجہ سے امریکہ کی مداخلت کو نامناسب قرار دے چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کی باضابطہ تاریخ کا تاحال فیصلہ نہیں کیا گیا تاہم ذرائع کے مطابق اس پر 48 گھنٹے میں فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ دریں اثنا، ایران اور امریکہ کے درمیان سفارتی کشیدگی اور عسکری سرگرمیاں دونوں طرف سے شدت اختیار کر رہی ہیں۔