انٹرنیشنل ڈیسک : یورپ اس وقت ایک ایسی حقیقت سے دہل اٹھا ہے جو کسی ہارر فلم سے کم نہیں لگتی، لیکن یہ مکمل طور پر سچ ہے۔ ایک اسپرم ڈونر نے لاعلمی میں تقریبا 197 بچوں کو جنم دیا، لیکن اس کے ساتھ ہی ان بچوں کو ایک مہلک جینیاتی بیماری بھی منتقل ہو گئی، جو آگے چل کر جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ معاملہ اب پورے یورپ میں خوف، تشویش اور سوالات کی وجہ بن گیا ہے۔
پورا معاملہ کیا ہے
یورپی براڈکاسٹنگ یونین ( EBU) کی تحقیقی صحافت ٹیم نے ایک چونکا دینے والی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ڈنمارک کے ایک اسپرم بینک سے حاصل کیے گئے اسپرم کو 14 یورپی ممالک کے 67 فرٹیلٹی کلینکس میں استعمال کیا گیا۔ ان اسپرم سے اب تک کم از کم 197 بچوں کی پیدائش ہو چکی ہے۔ یہ تعداد آگے مزید بڑھ سکتی ہے۔ یہ تحقیق بی بی سی سمیت 14 سرکاری نشریاتی اداروں نے ای بی یو کے انویسٹی گیٹو نیٹ ورک کے تحت کی ہے۔ لیکن اصل خطرہ بچوں کی تعداد نہیں بلکہ ان کے ڈی این اے میں چھپی بیماری ہے۔
جِین میں چھپا تھا موت کا کوڈ
جس اسپرم ڈونر سے یہ اسپرم لیا گیا تھا وہ ظاہری طور پر بالکل صحت مند تھا اور اس نے تمام عام طبی ٹیسٹ پاس کیے تھے۔ لیکن بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ اس کے جسم کے کچھ خلیوں میں پیدائشی طور پر ایک خطرناک جینیاتی تبدیلی موجود تھی۔ یہ تبدیلی ٹی پی53 جین میں تھی۔ ٹی پی 53 جین جسم میں کینسر کو روکنے کا کام کرتا ہے۔ ڈونر کے تقریبا 20 فیصد اسپرم میں یہ خراب جین موجود تھا۔ ان اسپرم سے پیدا ہونے والے بچوں کے جسم کے ہر خلیے میں یہ جینیاتی تبدیلی منتقل ہو گئی۔
لی فراومینی سنڈروم (Li-Fraumeni Syndrome) : نام چھوٹا، خطرہ بہت بڑا۔
اس جینیاتی تبدیلی کو طبی زبان میں لی فراومینی سنڈروم ( Li-Fraumeni Syndrome) کہا جاتا ہے۔ اس بیماری سے جڑی حقیقت نہایت خوفناک ہے۔
- زندگی بھر کینسر ہونے کا خطرہ 90 فیصد تک۔
- بچپن میں ہی کینسر کی شروعات ممکن۔
- دماغی رسولی کا خطرہ۔
- ہڈیوں کے کینسر اور چھاتی کے کینسر کا ہائی خطرہ۔
اب تک کیا سامنے آیا ہے؟
اب تک کی جانچ میں 67 بچوں کے جینیاتی ٹیسٹ کیے گئے۔ 23 بچوں میں اس تبدیلی کی تصدیق ہوئی۔ 10 بچوں میں کینسر کی تشخیص ہو چکی ہے۔ کئی بچوں کی موت بھی ہو چکی ہے۔ یہ اعداد و شمار ابھی ابتدائی ہیں اور آگے مزید کیس سامنے آ سکتے ہیں۔
کیا بچا ؤ ممکن ہے
لندن کے انسٹی ٹیوٹ آف کینسر ریسرچ کی پروفیسر کلیئر ٹرنبل کے مطابق یہ بیماری صرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی طور پر بھی تباہ کر دیتی ہے۔ مریضوں کو ہر سال ایم آر آئی، الٹراساؤنڈ اور مسلسل جانچ سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ خوف پوری زندگی ساتھ رہتا ہے۔ کچھ معاملات میں خواتین کو احتیاط کے طور پر چھاتی نکلوانے کا مشورہ دیا جاتا ہے تاکہ مستقبل میں کینسر کا خطرہ کم کیا جا سکے۔
سب سے بڑا سوال: ذمہ دار کون
اس پورے معاملے میں اسپرم ڈونر کو خود معلوم نہیں تھا کہ وہ اس خطرناک جین کا حامل ہے۔ اسپرم بینک کا کہنا ہے کہ اس وقت جینیاتی اسکریننگ لازمی نہیں تھی۔ لیکن اب بڑا سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ کیا اسپرم عطیہ جیسے حساس معاملات میں قوانین اتنے نرم ہونے چاہئیں۔ کیا سینکڑوں بچوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالنا درست ہے۔
راز ابھی بھی نامکمل
ای بی یو کی رپورٹ کے مطابق 197 بچوں کی تعداد کم بھی ہو سکتی ہے۔ کئی ممالک سے اب تک مکمل معلومات نہیں مل سکی ہیں۔ آج یورپ میں سینکڑوں خاندان ایک ہی خوف کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں کہ کہیں اگلا نمبر ان کے بچے کا تو نہیں۔