انٹرنیشنل ڈیسک : آسٹریلیا کے سڈنی میں واقع بونڈی بیچ پر ہونے والے پرتشدد حملے کے بعد نہ صرف ملک کے اندرونی سکیورٹی نظام پر سوال اٹھے ہیں بلکہ مغربی ممالک کی وسیع تر انضمام اور انتہاپسندی مخالف پالیسیوں پر بھی نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ اسی دوران متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید النہیان کی 2017 کی ایک وارننگ سوشل میڈیا اور بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر دوبارہ وائرل ہو رہی ہے۔
بونڈی بیچ حملہ: سکیورٹی، نیریٹیو (بیانیہ ) اور معاشرہ
بونڈی بیچ حملہ اگرچہ ابھی تفتیش کے دائرے میں ہے اور کسی بھی نظریے سے جوڑنے کے دعوے سرکاری طور پر ثابت نہیں ہوئے ہیں، لیکن حملے کے بعد جس طرح سوشل میڈیا پر افواہیں، نفرت انگیز بیانیے اور فرقہ وارانہ الزامات سامنے آئے ہیں، انہوں نے آسٹریلیا کی سماجی ہم آہنگی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ آسٹریلوی یہودی برادری اور دیگر اقلیتی گروہوں نے پہلے بھی اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ عوامی مظاہروں میں نفرت انگیز نعرے، عبادت گاہوں پر حملے اور آن لائن اشتعال انگیزی کے معاملات میں قانونی کارروائی کی رفتار سست رہی ہے۔ بونڈی بیچ کے واقعے نے ان خدشات کو مزید گہرا کر دیا ہے۔
2017 کی وارننگ کیوں اہم ہے
شیخ عبداللہ بن زاید نے 2017 میں ایک بین الاقوامی فورم پر کہا تھا کہ اگر یورپ فیصلہ کرنے میں تذبذب، سیاسی طور پر درست بننے کی مجبوری اور اس غلط فہمی میں مبتلا رہا کہ وہ اسلام اور مشرق وسطی کو بہتر سمجھتا ہے، تو مستقبل میں اسے اپنے ہی معاشروں سے جنم لینے والے انتہاپسندوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے اسے خالص جہالت قرار دیا تھا۔ آٹھ سال بعد فرانس میں فسادات، برطانیہ میں سماجی تناؤ، سویڈن اور آئرلینڈ میں سکیورٹی پر بحث، اور اٹلی میں انضمام کے بحران کے درمیان یہ بیان دوبارہ زیر بحث ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یورپ میں کھلی سرحدیں، کمزور انضمامی ماڈل اور انتہا پسند نظریات پر نرم نگرانی نے صورتحال کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔
🇦🇪 UAE MINISTER’S 2017 WARNING: “EUROPE WILL REGRET IGNORING RADICALISM”… 2025 JUST PROVED HIM RIGHT
Back in 2017, UAE Foreign Minister Sheikh Abdullah bin Zayed Al Nahyan dropped a bombshell warning to the West about homegrown radicals.
And man... it's hitting different now… pic.twitter.com/0OQqpKLgiM
— Mario Nawfal (@MarioNawfal) December 15, 2025
مغربی ماڈل پر سوال
بونڈی بیچ حملہ اب محض ایک فوجداری واقعہ نہیں بلکہ ایک پالیسی وارننگ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ اظہار رائے کی آزادی ہونی چاہیے یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ نفرت، اشتعال انگیزی اور تشدد کی حد کہاں متعین کی جائے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر مغربی ممالک یورپ کے تجربات سے سبق نہیں لیتے تو سماجی تقسیم اور سکیورٹی کے خطرات مزید گہرے ہو سکتے ہیں۔ آج جب یورپی ممالک میں اندرونی سطح پر ابھرنے والی انتہاپسندی پر کھلی بحث ہو رہی ہے تو اس بیان کو پیشینگوئی کے بجائے ایک انتباہ کے طور پر دوبارہ پڑھا جا رہا ہے۔ بونڈی بیچ جیسے حملوں کے بعد یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا مغربی ممالک نے انتہا پسند نظریات سے نمٹنے میں ضرورت سے زیادہ نرمی برتی۔ دوسری جانب انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے سکیورٹی یقینی بنانے کا چیلنج بھی اتنا ہی سنگین بنا ہوا ہے۔