انٹرنیشنل ڈیسک: بھارت کے ہاتھوں عسکری محاذ پر مسلسل ناکامیوں کے بعد پاکستان کے اعلیٰ عسکری حکام کا رخ اب امریکہ کی طرف ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے بعد اب پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو بھی امریکہ پہنچ گئے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ہندوستان کی فوجی کارروائی نے چینی ساختہ ہتھیاروں کے معیار پر سوال اٹھائے ہیں، پاکستان کا واشنگٹن کی دہلیز پر دستک دینا کئی اشارے دے رہا ہے۔
کیا امریکہ پاکستان کے ساتھ دفاع میں تعاون کرے گا؟
بھارت کے ساتھ حالیہ فوجی محاذ آرائی میں بار بار ہارنے کے بعد پاکستان کے اعلیٰ فوجی حکام کا رخ اب امریکہ کی طرف ہے۔ پہلے آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور اب فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کا دورہ امریکہ اسی سلسلے کی اگلی کڑی تصور کیا جا رہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کے بعد چین سے ملنے والے ہتھیاروں کے معیار پر سوال اٹھنے لگے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کی حکمت عملی ہل گئی ہے اور اسے اب ایک بار پھر امریکہ کی پناہ لینا پڑی ہے۔
پچھلے دس سالوں میں پہلا دورہ
پاکستانی فضائیہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق گزشتہ دس برسوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی حاضر سروس فضائیہ کے سربراہ نے امریکہ کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو بڑھانا اور باہمی مفادات کو مضبوط بنانا ہے۔ امریکہ میں سدھو نے امریکی فضائیہ کے سربراہ جنرل ڈیوڈ ڈبلیو ایلون اور بین الاقوامی امور کے نائب وزیر کیلی ایل سیبولٹ سمیت کئی اہم فوجی اور سیاسی رہنماو¿ں سے ملاقات کی۔
بہت سے مسائل پر بات ہوئی۔
ان ملاقاتوں میں دوطرفہ فوجی تعلقات، مشترکہ تربیتی پروگراموں اور دفاعی ٹیکنالوجی کے تبادلے پر سنجیدہ بات چیت ہوئی۔ دونوں فریقین نے مستقبل میں دفاعی شراکت داری کو مزید گہرا کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب چند ہفتے قبل سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پاکستانی آرمی چیف عاصم منیر کو لنچ پر مدعو کیا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان عسکری تعلقات ایک بار پھر گرم ہو سکتے ہیں۔ مجموعی طور پر پاکستان کی یہ سفارتی مشق بھارت کی فوجی برتری اور چین پر اس کے کم ہوتے انحصار کے جواب میں متبادل اسٹریٹجک پارٹنرشپ کی تلاش کی عکاسی کرتی ہے۔