لندن: یوکرین کی سلامتی کی گارنٹی پر بات کرنے کے لیے جمعرات کو پیرس میں ہونے والے اجلاس کے دوران یورپی ممالک تذبذب کی حالت میں نظر آئے۔ جنگ بلا روک ٹوک جاری ہے اور جنگ بندی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ اس کے علاوہ مستقبل میں یوکرین کی سلامتی میں امریکہ کے کردار سے متعلق اہم سوال کا بھی کوئی جواب نہیں ملا۔ یوکرین کی امداد پر بات کرنے کے لیے یورپی ممالک کئی ماہ سے اجلاس کر رہے ہیں۔
اجلاس میں اس بات پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ اگر روس نے جنگ بند ہونے کے بعد مستقبل میں دوبارہ حملہ کیا تو اس سے عسکری طور پر نمٹنے کا کیا لائحہ عمل ہو گا۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے زور دیا ہے کہ یوکرین کو یورپ کی طرف سے دی گئی فوجی یقین دہانی کو امریکہ کی حمایت حاصل ہونی چاہیے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی اشارہ دیا ہے کہ ان کا ملک بھی اس میں شامل ہوگا۔ تاہم اس کا موقف واضح نہیں ہے۔ انہوں نے نہ تو یوکرین میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے اور نہ ہی روس کو سزا دینے کے لیے اس پر اضافی سخت پابندیاں عائد کی ہیں۔
یورپی ممالک برطانیہ، فرانس اور ایسٹونیا نے کہا ہے کہ وہ روس کو دوبارہ حملہ کرنے سے روکنے کے لیے یوکرین میں فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں، جب کہ پولینڈ نے کہا ہے کہ وہ اس میں شرکت نہیں کرے گا اور اس کے بجائے یورپ کے مشرقی حصے میں نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کے سیکیورٹی نظام کو مضبوط بنانے پر توجہ دے گا۔ مارچ میں برطانوی وزیراعظم سٹارمر نے یورپی اتحادیوں کو بتایا کہ یوکرین کے لیے کم از کم 10,000 فوجیوں کی ضرورت ہوگی۔ تاہم، بتدریج تعیناتی (گھماو¿) اور باقی فوجیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، تقریباً 30,000 فوجیوں کی ضرورت ہوگی۔