اسلام آباد: چین نے اربوں ڈالر کے چین -پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے حوالے سے اپنے خاص دوست پاکستان کو بھی بڑا جھٹکا دے دیا ہے۔ چین نے سی پی ای سی کے تحت توانائی، پانی کے انتظام اور موسمیاتی تبدیلی کے شعبوں میں پاکستان کے ساتھ کسی قسم کا تعاون کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ نقدی اور قرض کے بحران کا سامنا کر رہے پاکستا ن کے لئے چین کا یہ فیصلہ انتہائی اہم اور تعلقات میں دراڑ مانا جارہا ہے ۔ دی ایکسپریس ٹربیون کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے بلوچستان کے صوبے گوادر میں درآمدی کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ کی تیاری کی مخالفت چھوڑ کر چین کے تحفظات پر اس کے کئی مطالبات پر رضامندی ظاہر کی تھی ۔
رپور ٹ میں CPEC کی 11ویں مشترکہ تعاون کمیٹی (JCC) کے دستخط شدہ منٹس کا حوالہ دیتے ہوئے یہ جانکاری دی گئی ہے ۔ بتادیں کہ جے سی سی ،سی پی ای سی کا ایک اسٹریٹجک فیصلہ ساز ادارہ ہے۔ شہباز حکومت کی پہل پر اس کی ورچوئل میٹنگ گزشتہ سال 27 اکتوبر میں ہوئی تھی ۔ اس میں کچھ پیش رفت ہوئی تھی۔ تاہم، ملاقات کے منٹس پر نو ماہ بعد 31 جولائی کو دستخط کیے گئے، جس میں چین کے نائب وزیر اعظم ہی لیفینگ نے شامل ہوئے تھے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے چین کے ساتھ شیئر کیے گئے حتمی مسودے اور دونوں فریقوں کے دستخط شدہ حتمی منٹس میں کئی فرق تھے ۔
60 بلین ڈالر کا CPEC چین کے پرجوش بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کا اہم منصوبہ ہے۔ جو بلوچستان کی گوادر بندرگاہ کو چین کے صوبے سنکیانگ سے جوڑتی ہے ۔ اس سے قبل بھی پاکستان اور چین کے درمیان اس منصوبے کے حوالے سے تنازعات کی خبریں آتی رہی ہیں۔ بلوچستان کے عوام سی پی ای سی کے خلاف مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ چینی ہیکرز نے ایک بار پھر امریکی سلامتی کو پامال کیا ہے۔ اس بار ہیکرز نے امریکی محکمہ خارجہ کو نشانہ بنایا ہے۔ محکمہ خارجہ کے آئی ٹی حکام کے مطابق ہیکرز 10 ای میل اکاؤنٹس سے 60 ہزار ای میل ڈیٹا چرانے میں کامیاب ہوگئے۔