پشاور: پاکستان کے صوبہ پنجاب میں توہین مذہب کے ایک مبینہ معاملے نے ایک بار پھر اقلیتوں کے تحفظ پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ لاہور کی نشاط کالونی سے ایک مسیحی شخص عامر مسیح کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف توہین آمیز کلمات کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ پولیس افسر ذوالفقار علی کے مطابق شکایت کنندہ سنور علی نے پولیس کو بتایا کہ عامر مسیح اس کی کریانہ کی دکان پر آیا۔ وہاں اس نے پاکستان چھوڑنے کی بات کی اور اچانک نبی صاحب کے بارے میں مبینہ طور پر توہین آمیز کلمات کہہ دیے۔
علی نے دعویٰ کیا کہ اس نے مسیح کو روکنے کی کوشش کی لیکن وہ موقع سے فرار ہوگیا۔ اس کے بعد علی نے پولیس میں شکایت درج کرائی، جس پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295-C کے تحت مقدمہ درج کر کے عامر مسیح کو گرفتار کر لیا گیا۔ تاہم مسیحی برادری سے وابستہ ایک قانونی تنظیم کے وکیل نپولین قیوم کا کہنا ہے کہ یہ کیس مکمل طور پر فرضی ہے۔ ان کے مطابق عامر اور سنور علی میں بارش کے پانی کی نکاسی پر جھگڑا ہوا۔ نپولین قیوم نے بتایا کہ دونوں ایک ہی گلی میں کئی سالوں سے رہتے ہیں، حال ہی میں بارش کے پانی پر جھگڑا ہوا، علی نے الزام لگایا کہ مسیح نے اپنے گھر کا پانی گلی میں بہنے دیا جس سے پانی ان کی دکان میں داخل ہوگیا، اس جھگڑے کا بدلہ لینے کے لیے ان کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کرایا گیا۔
پاکستان میں توہین مذہب ایک انتہائی حساس مسئلہ ہے۔ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295-C کے تحت اگر پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز کلمات ثابت ہو جائیں تو مجرم کو سزائے موت یا عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کے الزامات اکثر ذاتی دشمنی، زمینی تنازعات یا اقلیتوں کو دھمکانے کی وجہ سے لگائے جاتے ہیں۔ ملک میں عیسائی اور ہندو برادری اس قانون کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ پولیس نے مسیح کو گرفتار کر لیا ہے۔ وکلاءکا کہنا ہے کہ اب کیس کی منصفانہ تحقیقات اور انصاف حاصل کرنا بڑا چیلنج ہوگا۔ مقامی گرجا گھر اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کیس پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور حکومت سے اپیل کر رہی ہیں کہ بے گناہ لوگوں کو جھوٹے الزامات کے ذریعے پھنسایا نہ جائے۔