بیجنگ: چین نے توانائی اور پانی کے بحران کے دو عالمی مسائل کا ایک ساتھ حل پیش کر کے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ صوبہ شانڈونگ کے شہر ریزا ؤمیں قائم ایک جدید ترین فیکٹری سمندر کے کھارے پانی کو گرین ہائیڈروجن( مستقبل کے پٹرول / ایندھن) اور پینے کے قابل انتہائی خالص پانی میں تبدیل کر رہی ہے۔ اس پلانٹ کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ روایتی بجلی یا ایندھن پر انحصار نہیں کرتا۔ فیکٹری کو توانائی ملتی ہے پاس کی اسٹیل اور پیٹروکیمیکل یونٹس سے نکلنے والی بیکار گرمی ( ویسٹ ہیٹ ) سے ، جسے اب تک بے کار سمجھ کر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے اس کی پیداواری لاگت نہایت کم ہو گئی ہے۔
ماہرین اس ٹیکنالوجی کو 'ون اِن پٹ ، تھری آؤٹ پُٹ ' ماڈل قرار دے رہے ہیں۔ اس میں ان پٹ کے طور پر سمندر کا کھارا پانی اورانڈسٹریل ویسٹ ہیٹ ( صنعتی ضائع شدہ حرارت ) استعمال ہوتی ہے، جبکہ آؤٹ پٹ میں تین مفید چیزیں حاصل ہوتی ہیں۔ پہلی، ہر سال تقریبا چار سو پچاس مکعب میٹر صاف پینے کے قابل پانی، جسے گھریلو اور صنعتی دونوں ضروریات کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دوسری، سالانہ تقریبا ایک لاکھ بانوے ہزار مکعب میٹر گرین ہائیڈروجن، جو صاف ایندھن کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ تیسری، تقریبا تین سو پچاس ٹن کھارا محلول ( گھول ) ، جسے سمندری کیمیکل بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔
اس طرح اس فیکٹری میں کچھ بھی ضائع نہیں جاتا۔ ہر پیداوار کو دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے، جس سے ماحول پر اضافی بوجھ نہیں پڑتا۔ اگر لاگت کی بات کی جائے تو سمندر کے پانی کو پینے کے قابل بنانے پر صرف دو یوآن یعنی تقریبا چوبیس روپے فی مکعب میٹر خرچ آ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی کو امریکہ اور سعودی عرب جیسی جدید ٹیکنالوجیز سے بھی آگے مانا جا رہا ہے۔ گرین ہائیڈروجن کی پیداوار اتنی ہے کہ اس سے 100 بسیں تقریبا 3800 کلومیٹر تک چل سکتی ہیں۔ سمندر سے گھرے ہوئے ممالک کے لیے یہ ٹیکنالوجی مستقبل میں پانی کی قلت اور صاف توانائی کے بحران کا مستقل حل بن سکتی ہے۔