انٹرنیشنل ڈیسک: اکتوبر 2025 میں افغانستان کی سرحد کے نزدیک علاقوں میں شدید جھڑپیں ہوئیں، جن میں پاکستان کے 58 فوجی مارے گئے۔ جبکہ پاکستان نے دعوی کیا ہے کہ اس نے 200 سے زیادہ جنگجوؤں کو ہلاک کیا ہے۔ لیکن یہ اعداد و شمار کچھ بھی کہہ لیں، حقیقت یہ ہے کہ سرحدی پہاڑی علاقوں میں گوریلا جنگ تیز ہو گئی ہے اور اس میں فتح یاب دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (TTP) ہے۔
گوریلا جنگ کیا ہے؟
گوریلا جنگ کا مطلب ہے چھوٹے چھوٹے حملوں کا کھیل۔ اس میں بڑی فوج کے خلاف چھوٹے دستے لڑتے ہیں۔ وہ سیدھے ٹکراؤ سے بچتے ہیں، اچانک حملہ کرتے ہیں اور پھر چھپ جاتے ہیں۔ یہ جنگ کی حکمت عملی پہاڑوں، جنگلات یا دیہات میں زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔ پرانے ہتھیار جیسے رائفل، آئی ای ڈی(سڑک پر بم)اور اب ڈرون کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد دشمن کو تھکانا، ڈرانا اور کمزور کرنا ہوتا ہے۔ ویت نام یا افغانستان کی جنگوں میں یہی تکنیک فیصلہ کن ثابت ہوئی تھی۔

ٹی ٹی پی کی چالاکی اور طاقت
ٹی ٹی پی کے پاس تقریبا 8,000 جنگجو ہیں، جبکہ پاکستانی فوج لاکھوں میں ہے۔ پھر بھی ٹی ٹی پی کی چالاکی انہیں برتری دے رہی ہے۔ ٹی ٹی پی اکثر سڑکوں پر چلنے والے پاکستانی قافلوں پر اچانک حملہ کرتی ہے۔ 8 اکتوبر 2025 کو جنوبی وزیرستان میں ایسا ہی حملہ ہوا، جس میں 11 فوجی مارے گئے، جن میں دو افسران شامل تھے۔ حملہ کر کے وہ فورا ً افغان سرحد پار کر جاتے ہیں۔
پہاڑوں کا قلعہ بنے علاقے
خیبر پختونخوا کے شمالی اور جنوبی وزیرستان جیسے پہاڑی علاقے ٹی ٹی پی کے مضبوط گڑھ ہیں۔ یہاں گھنے جنگلات اور اونچی چوٹیوں کی وجہ سے پاکستانی فوج کی رسائی محدود ہوتی ہے۔ ٹینک اور ہیلی کاپٹر مشکل سے کام آتے ہیں۔ ٹی ٹی پی چھپ کر آئی ای ڈی لگاتی ہے اور سنائپر رائفل سے نشانہ بناتی ہے۔ جولائی 2025 میں پاکستان نے آپریشن سربکف چلایا تھا، لیکن ٹی ٹی پی نے چند ہی ہفتوں میں دوبارہ علاقوں پر قبضہ کر لیا۔

سرحد پار سے مدد
افغان طالبان، ٹی ٹی پی کو تربیتی کیمپ، پیسے اور ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ امریکہ کے افغانستان چھوڑنے کے بعد جو ہتھیار پیچھے رہ گئے، جیسے نائٹ وژن گوگلز اور سنائپر رائفلز، اب ٹی ٹی پی کے پاس ہیں۔ سرحد کھلی ہونے کی وجہ سے وہ آسانی سے حملہ کر کے افغانستان چلے جاتے ہیں۔ ستمبر 2025 میں ایک بڑے حملے میں 19 پاکستانی فوجی مارے گئے تھے۔
مقامی حمایت کی جڑیں
ٹی ٹی پی پشتون کمیونٹی کی ناراضگی سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ فاٹا علاقے کو مرکزی دھارے میں شامل کیے جانے کے بعد وہاں کے لوگوں نے خود مختاری کھو دی۔ فوج پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات ہیں۔ اسی ناراضگی کو ٹی ٹی پی بھناتا ہے۔ وہ خود کو پشتونوں کا محافظ بتاتا ہے اور سرکاری ملازمین، پولیو ویکسینیٹرز اور مزدوروں پر حملے کرتا ہے تاکہ ترقی رک جائے اور لوگ ڈر کر رہیں۔ اس خوف کے ماحول میں انہیں کچھ مقامی حمایت بھی مل جاتی ہے۔

پاکستانی فوج کیوں پیچھے ہے؟
پاکستانی فوج کے پاس جدید ہتھیار ہیں، لیکن وہ روایتی (کنونشنل)جنگ کے لیے بنی ہے۔ گوریلا جنگ میں وہ اکثر الجھ جاتی ہے۔ چھوٹے آپریشنز تو ہوتے ہیں، لیکن فوج کسی علاقے پر طویل عرصے تک کنٹرول نہیں رکھ پاتی۔ معاشی بحران اور سیاسی عدم استحکام بھی بڑی کارروائیوں میں رکاوٹ ہیں۔ 2025 میں اب تک ٹی ٹی پی کے 600 سے زیادہ حملے ہو چکے ہیں جو 2024 کے پورے سال سے بھی زیادہ ہیں۔ ان حملوں نے ہزاروں لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے۔
آگے کیا؟
ٹی ٹی پی کا یہ عروج پاکستان کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ اگر افغان طالبان کی مدد نہیں رکی، تو یہ جنگ مزید طویل ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو صرف ہتھیار نہیں بلکہ مقامی ناراضگی کا حل نکالنا ہوگا۔ ہندوستان سمیت پورے جنوبی ایشیا کے لیے یہ عدم استحکام فکر کی بات ہے۔ گوریلا جنگ نے پھر ثابت کیا ہے کہ صرف تعداد یا ہتھیار نہیں بلکہ حکمت عملی اور زمین کا علم ہی اصل طاقت ہوتی ہے۔