انٹرنیشنل ڈیسک: مشرق وسطی کے عرب اور مسلم ممالک کی جانب سے مغربی ممالک کو ایک سخت اور براہ راست پیغام دیا گیا ہے۔ ان ممالک نے سوال اٹھایا ہے کہ جب وہ خود مسلم اور اسلامی معاشروں سے تعلق رکھنے کے باوجود مسلم برادرہڈ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں، تو پھر برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے مغربی ممالک اس تنظیم سے وابستہ افراد کو سرگرمیوں اور احتجاجی مظاہروں کی اجازت کیوں دے رہے ہیں۔
We are Arabs. We are Muslims.
We are Middle Eastern. And we banned the Muslim Brotherhood as terrorists. In Britain and Australia, they are allowed to operate and riot.
Why are you trying to be more Muslim than Muslims themselves? pic.twitter.com/GL1SBxICe9
— Amjad Taha أمجد طه (@amjadt25) December 22, 2025
عرب رہنماؤں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے، ہم عرب ہیں، ہم مسلمان ہیں اور ہم مشرق وسطی سے آتے ہیں۔ ہم نے مسلم برادرہڈ کو دہشت گرد سمجھا اور اس پر پابندی لگائی۔ پھر مغرب ہم سے زیادہ مسلمان بننے کی کوشش کیوں کر رہا ہے۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یورپ اور آسٹریلیا میں اسلامی تنظیموں کے کردار، اظہار رائے کی آزادی اور اندرونی سلامتی کے حوالے سے بحث تیز ہو گئی ہے۔ عرب ممالک کا مؤقف ہے کہ مسلم برادرہڈ محض ایک نظریاتی تحریک نہیں بلکہ کئی ممالک میں سیاسی عدم استحکام، تشدد اور اقتدار کی تبدیلی سے وابستہ رہا ہے۔
دوسری جانب مغربی ممالک کا مؤقف یہ ہے کہ جب تک کسی تنظیم کی سرگرمیاں براہ راست تشدد یا دہشت گردی سے منسلک نہ ہوں، اس وقت تک اسے ممنوع قرار دینا ان کے قانونی اور جمہوری نظام کے مطابق نہیں ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ٹکرا ؤ صرف مسلم برادرہڈ تک محدود نہیں بلکہ یہ مشرق وسطی کی سلامتی پر مبنی سوچ اور مغربی آزاد جمہوریت کے درمیان گہرے نظریاتی فرق کو نمایاں کرتا ہے۔ عرب ممالک کا کہنا ہے کہ زمینی حقائق انہوں نے خود برداشت کیے ہیں، اس لیے خطرے کی شناخت بھی وہی بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔