انسان نے سائنسی قوتوں سے بہت پہلے ہی ساکشاتکار کرلیا تھا۔سائنس ہماری روایتی طرز زندگی کا ایک لازمی حصہ رہا ہے۔انسانی زندگی کے دو اہم ایجادات اور انسانی زندگی کی مسلسل بنیاد اگنی اور چکر آج بھی کسی نہ کسی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ سائنسی شعور سبھی جانداروں میں سائنس کے اپنے آس پاس موجود ہونے کا احساس ہے۔ سائنس کو سمجھنے اور اس کے عناصر کا جائزہ لینا ہی سائنسی شعور کی متعین شکل ہے۔ سائنس کی موجودگی جو مختلف سرگرمیوں کے ذریعے دماغ میں پہنچنے والے آویگوں سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ سائنس کے رابطے سے وکست اور بہتر ہوتی ہے۔ آس پاس کے ماحول پر سائنس کا اثر انسان کو ویوہار کشل بناتا ہے۔
آج کے منظر نامے یعنی اکیسویں صدی میں ہمارے آس پاس یومیہ زندگی کے ہر مرحلے میں سائنسہ موجود ہے۔ ٹرانسپورٹ کے جدید ذرائع ، ٹیکنالوجی کی ترقی ، صنعتی ، کاروبار ، پیداوار ، بجلی اور میڈیا ، کیمیکل اور دواسازی سائنس ہماری روز مرہ کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ کھانے کی اشیا سے لے کر تکنیکی وسائل تک ، طبی میدان سے صفائی اور صحت تک ، سائنس کی مدد سے اسے قابل رسائی اور آسان بنایا گیا ہے۔ جو کچھ بھی انسان اپنی دانشورانہ صلاحیت اور ضرورت کے مطابق سوچتا ہے یا سوچ سکتا ہے اسے ویریفائی کے دھراتل پر ستیاپت بھی کرسکتا ہے۔ سائنسی شعور ہمیں سوال کرنے اور اس سوال کا حل تلاش کرنے کیلئے پریرت کرتی ہے۔ ہم ویدوں اور پرانوں کی طرف جائیں تو پائیں گے کہ ہر بات کا آغاز ہی سوال سے ہوتا ہے۔ اور اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے انسانی من میں شعور کے سنچار کو بڑھاوا دیتا ہے۔
تعلیم کے شعبے میں سائنسی شعور کا سنچار بال من کو کو متجسس بناتا ہے اور اس تجسس کو شانت کرنے کا کام ٹیچر کرتے ہیں۔ ٹیچر کو محض تقلید کرنے والی تعلیم کو بڑھاوا نہ دیتے ہوئے پرایوگک اور عملی تعلیم کو فروغ دینا چاہئے تاکہ آغاز سے ہی سٹوڈنٹس کھلے دل سے سوالوں کوپوچھ سکیں اور ان کے ممکنہ جوابات کی تلاش میں خود بھی شامل ہوسکیں ۔ جو آسان شکل سے ہی سٹوڈنٹ کو سائنس سے جوڑ نے کا کام کرے گا۔ تحقیق ، دریافت اور ایجاد یہ سائنسی شعور کا بنیادی عنصر ہے ، خود کو اور اپنی قوتوں کو جاننا بھی ایک خصوصی قسم کا سائنس ہے جو سٹوڈنٹس کے من کو متحرک کرتا ہے۔ اگر ٹیچر کی شکل میں ہم صرف پیر وی کرنے والے سٹوڈنٹ بناتے ہیں تو ان کا سائنسی شعور تباہ ہو جائے گا جو کہ ایک ذہنی رجحان ہے اور زندگی گزارنے کیلئے ایک اہم ضرورت بھی ہر ٹیچر کو اپنے گیان کے معیار کو بڑھانا ہی ہوگا ۔کیونکہ گیان کے غائب ہونے کی شرح اب بہت تیز ہوچکی ہے جس کے لئے اسے وقت کی مانگ کے مطابق خود کو تکنیکی طور پر مضبوط بنانا ہوگا ۔
اسے اگر آج کے تناظر میں دیکھیں تو پائیں گے کہ کووڈ 19 جیسی مہاماری میں بھی دنیا کے سبھی لوگ آپس میں جڑے ہوئے ہیں ۔جبکہ آمدورفت پوری طرح یا جزوی طور پر آج بھی بند ہے۔ اس صورتحال میں بھی سٹوڈنٹس کوتعلیم مل رہی ہے اور سبھی طرح کے کام مکمل کئے جا رہے ہیں۔ اس کا کریڈٹ بھی سائنس اور اس کے صحیح استعمال کو بھی جاتا ہے۔ تکنیکی طور پرخود کو تقویت بخشنے اور ٹیچر کے طور پراپنے سٹوڈنٹس کو ترغیب دیناہر ٹیچر کو آتم وشواس اور فخر سے بھردیتا ہے ۔ اگر بھارت کے قابل فخر اتہاس کی طرف دیکھا جائے تو ہم پائیں گے کہ ہمارے پوروجوں نے بھی زندگی کے مختلف چیلنجوں کو قبول کرتے ہوئے ان کا سائنسی حل نکالا۔ رشی-منیوں نے مختلف قسم کے اصولوں اور ضابطوں کا نرمان کیا ہے ۔ جل شکتی وایو شکتی ،اگنی شکتی یہاں تک کہ پرتھوی کی گرتوا کرشن شکتی سب کو پہچانو اور اس سے ہونے والے فوائد سے آگاہ کرانے والے گرنتھوں کوبھی لکھا تاکہ یہ گیان آنے والی نسلوں میں سنچارت ہوسکے اور اس کا فائدہ انسانیت کو حاصل ہو۔
سائنس رکے ہوئے پانی کی طرح نہیں ہوسکتی۔ ہمیں نوجوان ذہن کو نئے وچاروں سے سیکھنا ہو گا اور سائنس سے ہونے والے فوائد کے فیصد کوبڑھانا ہو گا تاکہ کسی بھی قسم کے توازن کس سہیجا جاسکے ۔تکنیک اور پرکرتی میں تال میل بٹھایا جاسکے ۔وہی ترقی اصل ترقی ہوگی۔ بھارتیہ آئین میں ذکر کردہ شہریوں کے دس بنیادی فرائض میں سے ایک میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے ہر شہری کا یہ فرض ہوگا کہ وہ سائنسی نقطہ نظر اور انسانیت اور علم اور اصلاح کے جذبے کو فروغ دے ۔ اس نارمل سے لگتے کرانتی کاری پراودھان پر اگر ہر شہری عمل کرلے تو ہمارے سماج کا من سائنسی من ہوجائے گا۔
پرنسپل ڈی پی گلیریا