تہران: ایران کی راجدھانی تہران دنیا کے سب سے قدیم شہروں میں سے ایک ہے۔ یہاں ایک کروڑ سے زیادہ لوگ رہتے ہیں۔ لیکن آج یہ شہر پانی کی سب سے بڑی مصیبت سے دوچار ہے۔ یہی نہیں، یہاں پانی کی ریشننگ بھی شروع کی جا رہی ہے۔ اگر دسمبر تک خشک سالی رہی تو تہران کو خالی کرانا پڑ سکتا ہے۔
کیوں بڑھ گئی پانی کی کمی؟
تہران میں پانی ختم ہونے کے دہانے پر ہے۔ امیر کبیر بند میں پانی صرف چھٹا حصہ ہی بچا ہے۔ آدھے سے زیادہ صوبوں میں بارش نہیں ہوئی ہے۔ حکومت رات کو پانی بند کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے تاکہ پانی کو دوبارہ جمع کیا جا سکے۔ لیکن اصل میں بند خشک ہو چکے ہیں۔ ایک اہلکار نے کہا کہ دو ہفتوں میں پینے کا پانی بھی ختم ہو سکتا ہے۔
صدر مسعود پیڑیشکیان نے انتباہ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر نومبر کے آخر تک بارش نہ ہوئی تو پانی تقسیم کرنا پڑے گا اور اگر دسمبر تک خشک سالی رہی تو تہران چھوڑنا پڑے گا۔ یہ سننے میں ڈراونا لگتا ہے۔ لیکن یہی حقیقت ہے۔ ایران دہائیوں کی سب سے شدید خشک سالی سے گزر رہا ہے۔
خشک سالی کے کیا ہیں اسباب
حکومت ماحولیاتی تبدیلی کو مورد الزام قرار دے رہی ہے۔ موسم بدل رہا ہے۔ گرمی کی لہر آ رہی ہے جہاں درجہ حرارت 50 ڈگری سے اوپر چلا جاتا ہے۔ بارش کی کمی ہو رہی ہے۔ تہران کے علاقے میں 100 فیصد کمی ہو چکی ہے۔ لیکن یہ صرف آدھی سچائی ہے۔ اصل مسئلہ انسان نے پیدا کیا ہے۔ دہائیوں کی غلطیاں اب بھگتنی پڑ رہی ہیں۔
زیادہ کھیتی اور پانی کا غلط استعمال
ایران میں 90 فیصد سے زیادہ پانی کھیتی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لیکن یہ کھیتی پرانی ہے۔ کسان زیادہ پانی والی فصلیں اگاتے ہیں، جیسے چاول اور جو۔ دریا خشک ہو رہے ہیں۔ جائیدن رود جیسی ندیوں نے اب موسمی بہاو اختیار کر لیا ہے۔ بند بنا کر دریاوں کا بہاو خراب ہو گیا ہے۔ دلدل تباہ ہو گئے ہیں۔
زیادہ کنویں اور پمپنگ
ایران میں تیل کی طرح کنویں بھی کھودے گئے۔ زیر زمین پانی اتنا نکالا گیا کہ اب یہ ریچارج نہیں ہو پا رہا ہے۔ شہروں میں تیزی سے عمارتیں بنی ہیں۔ آبادی بڑھی، لیکن پانی کی کوئی منصوبہ بندی نہیں بنی۔ تہران جیسے شہروں میں پانی کی مانگ دگنی ہو گئی، لیکن سپلائی وہی رہی۔
سرکاری لاپرواہی
حکومت نے سالوں تک مسئلے کو نظر انداز کیا۔ بند بنائے لیکن بغیر سوچے۔ ماحولیاتی تبدیلی کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ کھیتی اور بنیادی ڈھانچے کی غلط پالیسیاں بنیں۔ اب تک کوئی بڑا پلان نہیں ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ خودکشی کے مترادف انتظام ہے۔ یہ اسباب مل کر ایک بڑا طوفان لے آئے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی نے آگ لگائی ہے، لیکن انسانی غلطیاں سب سے بڑا سبب ہیں۔
حکومت کیا کہتی ہے
ایران مایوس ہے۔ پڑوسی ممالک- افغانستان، تاجکستان، ازبکستان سے پانی مانگا جا رہا ہے۔ یہ سفارت کاری نہیں، مجبوری ہے۔ تہران میں رات کے وقت پانی بند کیا جا رہا ہے۔ کچھ علاقوں میں پہلے ہی کمی ہو رہی ہے۔ لیکن اگر بارش نہ ہوئی تو حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔
ماہرین کی رائے ہے کہ اب فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ پانی بچاو¿ مہم، نئی تکنیکیں اور صحیح پالیسیاں۔ لیکن سب سے پہلے بارش چاہیے۔ اگر دسمبر تک بارش نہ ہوئی تو تہران کی کہانی تاریخ بن سکتی ہے۔