اسلام آباد: پاکستان نے ایک بار پھر اپنی 'تکنیکی کمزوری' چین کے کندھوں پر ڈال دی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی آفات سے نمٹنے کے لیے پاکستان نے جمعرات کو چین سے ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ لانچ کیا۔ پاکستان کا اپنا خلائی پروگرام کئی دہائیوں سے سست روی کا شکار ہے اور اب وہ 'سپارکو' (پاکستان اسپیس اینڈ اپر ایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن) کے تکنیکی تعاون کے نام پر چین کی ٹیکنالوجی پر منحصر ہے۔
سرکاری ریڈیو کے مطابق یہ سیٹلائٹ پاکستان کو سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ، گلیشیئر پگھلنے اور جنگلات کی کٹائی جیسی آفات سے نمٹنے میں مدد دے گا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس ملک میں ہر سال اربوں روپے کاغذی منصوبوں میں نگل جاتے ہیں، وہاں ایک اور غیر ملکی سیٹلائٹ کیا تبدیلی لائے گا؟ وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے اسے 'فخر کا لمحہ' قرار دیا۔
انہوں نے لکھا کہ یہ پاکستان اور چین کے خلائی تعاون کو 'آسمان سے پرے' لے جائے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو اپنی سرزمین کی نقشہ سازی کے لیے اب بھی چینی سیٹلائٹس پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے نام پر پاکستان ایک اور غیر ملکی قرضوں میں جکڑا جا رہا ہے۔ سپارکو جیسی ایجنسیاں صرف تصویریں لانچ کرنے تک محدود ہیں۔ آب و ہوا کے انتظام کی زمینی حقیقت وہی ہے - ہر سال سیلاب میں گاو¿ں بہہ جاتے ہیں، لوگ بے گھر ہو جاتے ہیں اور بین الاقوامی مدد کی بھیک مانگی جاتی ہے۔