نئی دہلی :درسی کتب اوردرسگاہ کی سرگرمیوں نے ہندوستان میں شہریت کے تصور کو تشکیل دینے میں تاریخی لحاظ سے اپنا کردار ادا کیاہے ان کے پرزینٹیشن میں کتابوں کے مشمولات اور سال دوہزار تک تدریسیاتی شفٹ پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے نوآبادیاتی عہد سے لے کرمابعد نوآبادیاتی عہد کی متعدد دہائیوں میں اسکول کی درسی کتابوں میں ارتقا کو دریافت کیا یہ بات عظیم پریم جی یونیورسٹی بنگلورو،اسکول آف ایجوکیشن کی ڈاکٹر رامامنجری ہیگڑے نے ڈاکٹرکےآرنارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائناریٹیز اسٹڈیز،جامعہ ملیہ اسلامیہ میں لیکچر دیتے ہوئے کہی۔ گفتگو کا موضوع ’اسکولنگ،ٹیکسٹ بکس اینڈ کنسٹرکشن آف سیٹیزن شپ‘ تھاجسے ڈاکٹر بی آرامبیڈکر یادگاری خطبات سریز کے حصے کے طورپر منعقد کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر ہیگڑے نے اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں بتایا کہ نوآبادیاتی دور حکمرانی میں عوام کی تعلیم کی بنیادوں کے جائزے سے اپنی بات شروع کی۔انھوں نے اپنی گفتگو کے دوران ہندوستانی طلبہ میں شہری اقدار کی ترویج کے لیے ولیم لی و ارنر کے متعارف کردہ متن’ہندوستانی شہری‘کو مرکزی حوالہ بنایا۔ڈاکٹر ہیگڑے نے اس بات کی وضاحت کی ایسے متون غیر جانب دارنہ نہیں تھے۔ان کا مقصد نوآبادیاتی طاقت کے متعین کردہ شہریت سے متعلق چند مخصوص آئیڈیل کو طلبہ کے ذہن میں نقش کرنا تھا جس میں وفاداری، نظم و ضبط اورسماجی مطابقت جیسی باتیں شامل تھیں۔انھوں نے کہاکہ یہ تعلیم کے توسط سے زیر حکمرانی رکھنے کی یہ وسیع تر تدیبر کا حصہ تھی۔
اس کے بعد تقریر میں آزادی کے بعد کے دور کی بات ہوئی جس میں ڈاکٹر ہیگڑے نے نیشنل کونسل فار ایجوکیشنل رسرچ اینڈ ٹریننگ(این سی ای آرٹی)جیسی قومی ایجنسیوں کی وساطت سے نصابی خاکے کے ارتقا جا ئزہ لیا۔ انھوں نے بتایاکہ کس طرح این سی ای آرٹی کے ابتدائی دور کی کتابوں کا مقصد بھی مشترکہ شہری تفہیم کو فروغ دینا تھا۔ وقت کے ساتھ بتدریج نصابی ارتقا میں ہندوستان سماج کے سماجی و تہذیبی تنوع جھلکنے لگی۔ان کی تحقیق نے نیشنل کریکولم فریم ورک (دوہزار پانچ) پر منتج ہونے والے شفٹ کی طرف توجہ مبذول کرائی جس نے درسی کتاب تحریر کیے جانے کی زیادہ غور وفکر کی بنیاد فراہم کی۔
تقریر کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ کئی دہائیوں سے نظر ثانی ہونے کے باوجود درسی کتب باوجود سماجی تناظرات کو بدستور منعکس کررہی ہیں۔ڈاکٹر ہیگرے نے اجاگر کیاکہ مضمون میں تبدیلی ہوسکتی ہے تاہم اس متن کی تعبیر و تشریح کا زیادہ تر انحصار استاد پر ہوتاہے۔ اساتذہ معلومات کی منتقلی کا کوئی غیر فعال ذریعہ نہیں ہی۔وہ اپنے ساتھ زندہ تجربات و مشاہدات لاتے ہیں سماجی عہدہ و مناصب کے حامل ہوتے ہیں اور کلاس روم میں اپنی جانب داریاں بھی لاتے ہیں۔نتیجے کے طورپراساتذہ کے نظریہ اور طریقہ ئکار کے مطابق وہی متن الگ الگ طریقے سے پیش کیا جاسکتاہے۔
ڈاکٹر ہیگڑے نے اس بات پر زور دیا کہ درسی کتابیں تعلیمی وسائل سے بڑھ کر ہیں۔وہ ایسی گاڑیاں ہیں جن سے اقدار،سماجی رسومیات اور اجتماعی تخیل کی ترسیل ہوتی ہے۔ان کی تحقیق نے اس بات پر ابھارا کہ درسی کتابیں کیا پیش کرتی ہیں،انھیں کیسے پڑھایا جاتاہے اور طلبہ انھیں کیسے سمجھتے ہیں ان پہلوو¿ں پر قریبی نگاہ رکھی جائے۔انھوں نے سامعین سے کہاکہ درسی کتب کو سیاسی اور تہذیبی متون کی حیثیت سے پڑھیں اس سے نئے اذہان کی اخلاقی اور شہری تخیل کی پرورش میں مدد ملے ہوگی۔
سینٹر کی اعزازی ڈائریکٹر پروفیسر حلیمہ سعدیہ رضوی نے اپنی صدارتی تقریر میں کہاکہ خطبے نے نصاب اور درسی کتاب کے تعلق سے اہم سوالات اٹھائے ہیں اور اس کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اس پرغور کریں کہ معلومات کس طرح تشکیل پاتی ہے اور اسکول میں کس طرح اسے منتقل کیا جاتاہے۔پروگرام کوآرڈی نیٹر پروفیسر پدمانبھ سماریندر نے تمہیدی گفتگو کی اور تعلیم ونصاب کے میدان میں خطیبہ کے کارہائے نمایاں کو اجاگر کرتے ہوئے سامعین سے انھیں متعارف کرایا۔
دلچسپ بحث و مباحثے کے ساتھ اجلاس اختتام پذیر ہوا۔ یہ لیکچر بین علومی اسکالروں کو جن کے تحقیقی کام اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ پسماندہ لوگوں کی زندگیوں میں علم کی ہیئتوں کا کیا اثر ہوتاہے، ایک پلیٹ فارم پر لانے کی سینٹر کی وسیع تر کوشش کا حصہ تھا۔