ڈھاکہ: بنگلہ دیش کے سراج گنج ضلع کے شہزاد پور علاقے میں واقع نوبل انعام یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور کی آبائی حویلی "کچہری باڑی" پر منگل کو ہجوم نے حملہ کیا اور توڑ پھوڑ کی۔ تاریخی ورثے کے مقامات پر تشدد کے اس تازہ واقعے نے محمد یونس کی قیادت میں عبوری حکومت پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ ہجوم نے آڈیٹوریم، کھڑکیوں، دروازوں اور فرنیچر کو نقصان پہنچایا۔ واقعے کے بعد محکمہ آثار قدیمہ نے فوری طور پر جائے وقوعہ کو بند کر دیا ہے اور تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔
https://x.com/debajits3110/status/1932742593726579084
مقامی میڈیا کے مطابق تنازعہ موٹرسائیکل پارکنگ کی فیس کو لے کر عجائب گھر اور عجائب گھر کے اہلکاروں کے درمیان جھگڑے سے شروع ہوا۔ 8 جون کو شاہنواز نامی شخص اپنی فیملی کے ساتھ کچری باڑی گیا جہاں پارکنگ فیس پر جھگڑا ہوا۔ الزام ہے کہ ملازمین نے شاہنواز کو ایک کمرے میں بند کر کے مارا پیٹا۔ اس واقعہ کے خلاف مقامی لوگوں نے انسانی زنجیر بنا کر مظاہرہ کیا۔ مظاہرے کے دوران ہجوم پرتشدد ہوگیا اور حویلی پر حملہ کردیا۔ ہجوم نے میوزیم کے احاطے میں گھس کر آڈیٹوریم میں توڑ پھوڑ کی، کھڑکیوں کے شیشے اور فرنیچر کو توڑ دیا۔
رابندر کچہری باڑی یاٹیگور کا اسٹیٹ آفس ہوم وہ حویلی ہے جہاں ٹیگور کے آباو¿ اجداد سراج گنج کے علاقے میں اپنی زمینی جائیداد کا انتظام کرتے تھے۔ حویلی اب ایک میوزیم اور یادگار جگہ کے طور پر محفوظ ہے۔ شاعر رابندر ناتھ ٹیگور نے خود کئی بار اس جگہ کا دورہ کیا اور یہاں رہ کر اپنی بہت سی ادبی تخلیقات لکھیں۔ حملے کے سلسلے میں 50-60 لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے، جن میں سے 10 نامزد ہیں۔ اس واقعے نے بنگلہ دیش میں ہجوم پرستی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو نمایاں کیا ہے، خاص طور پر ان مقامات کو نشانہ بنانا جن کے بھارت سے تاریخی یا ثقافتی روابط ہیں۔
محمد یونس کی عبوری حکومت کے دور میں تشدد اور انتشار کے واقعات میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور یہ واقعہ اسی سلسلے کی ایک اور کڑی تصور کیا جا رہا ہے۔
ٹیگور کے ورثے پر حملہ نہ صرف وراثت پر حملہ ہے بلکہ اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش کی سیاسی اور سماجی صورت حال انتہائی نازک مرحلے میں ہے۔ اس سے ہندوستان اور بنگلہ دیش کے ثقافتی تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔