انٹرنیشنل ڈیسک: جاپان کی نئی وزیراعظم سانے تاکائچی پہلے دن سے ہی اپنی سخت کارکردگی کے انداز کو لے کر بحث میں ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں صبح 3 بجے میٹنگ بلائی، جس کے بعد ایک بار پھر جاپان کے اوور ورک کلچر پر بحث تیز ہو گئی ہے۔ تاکائچی کا کہنا ہے، “میں 18 گھنٹے کام کرتی ہوں، اور چاہتی ہوں لوگ بھی ایسے ہی کام کریں۔ ورک لائف بیلنس کوئی معنی نہیں رکھتا۔” انہوں نے یہاں تک کہا کہ لوگ "گھوڑے کی طرح کام کریں۔
ورک کلچر کو لے کر اٹھے سوال۔
جاپان میں لمبے عرصے سے کروشی یعنی کام کے بوجھ سے موت کا کلچر رہا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان نے اپنی معیشت کھڑی کرنے کے لیے ملازمین سے زیادہ کام کی امید کی تھی۔ اس دوران کئی لوگ دل کے دورے اور فالج سے اچانک مرنے لگے۔ ان اموات کو کروشی کہا گیا۔ حکومت کو بعد میں مجبور ہو کر اوور ٹائم کی حد مقرر کرنا پڑی تھی، محض 45 گھنٹے فی ماہ۔ تاہم تاکائچی نے اوور ٹائم کی حد بڑھانے کی تجویز کی حمایت کی ہے، جس کی وجہ سے یہ تشویش بڑھ گئی ہے کہ پرانا ضرورت سے زیادہ کام والا کلچر دوبارہ لوٹ سکتا ہے۔
رات 3 بجے میٹنگ پر تنازع۔
7 نومبر کو پارلیمنٹ میں بجٹ پر بحث کے لیے تاکائچی نے صبح 3 بجے اپنے مشیروں کی میٹنگ بلائی۔ اسے جاپانی میڈیا نے ‘3AM اسٹڈی سیشن’ کا نام دیا۔ سابق وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر یوشیہیکو نودا نے اس فیصلے کو “پاگل پن قرار دیا۔ ان کا کہنا تھاجب میں وزیراعظم تھا، تب صبح 6 یا 7 بجے کام شروع کرتا تھا۔ دوسروں کو رات کی خاموشی میں شامل ہونے کے لیے مجبور کرنا غلط ہے تنازع بڑھنے پر تاکائچی نے صفائی دیتے ہوئے کہا کہ ان کے گھر کی فیکس مشین خراب تھی، اس لیے انہیں وزیراعظم ہاو¿س جا کر تیاری کرنی پڑی۔
اوور ورک کلچر کی کالی سچائی۔
جاپان میں کام کا دباو¿ اتنا زیادہ ہے کہ لوگ بھیڑ بھاڑ والی ٹرینوں میں کھڑے کھڑے یا فٹ پاتھوں پر سو جاتے ہیں۔ تاریخ میں 1969 کا ایک سنگین واقعہ ہے کہ ایک 29 سالہ ملازم دماغی فالج سے مر گیا تھا، جس نے 100 سے زیادہ گھنٹے کام کیا تھا۔ تاکائچی کے بیان اور طرز عمل سے ماہرین پریشان ہیں کہ جاپان میں پھر سے وہ دور لوٹ سکتا ہے جب لوگ ذہنی اور جسمانی تھکان سے موت کے دہانے پر پہنچ جائیں۔ تاکائچی پر الزام ہے کہ وہ ملازمین پر نامناسب دباو¿ ڈال رہی ہیں اور اپنی طرز کارکردگی کو “نمونہ” بتا کر غلط مثال پیش کر رہی ہیں۔