لندن: برطانیہ میں نسل پرستی کو لے کر بحث پھر سے تیز ہو گئی ہے۔ وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے ریفارم یو کے کے رہنما نائجل فرَاز سے ان پر لگائے گئے نسل پرستی، سکول کے وقت یہودیوں کے خلاف تبصروں اور غیر ملکیوں کے بارے میں کی گئی ناپسندیدہ باتوں کے بارے میں وضاحت طلب کی ہے۔ فرَاز نے تمام الزامات کی تردید کی۔ چند ہفتے قبل ہی ریفارم یو کے کی رکن پارلیمان سارہ پوچِن ایک اشتہار میں "صرف سیاہ فام اور ایشیائی لوگوں کے دکھنے" پر اعتراض جتاتے ہوئے تنازعے میں آئی تھیں۔ فرَاز نے ان کے تبصرے کو "بدذوق" کہا، لیکن نسل پرست قرار دینے سے انکار کر دیا۔
تنازعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ آج بھی نسل پرست کہلانا ایک بڑا سماجی داغ ہے، لیکن کیا یہ داغ کمزور ہو رہا ہے؟ نسل پرستی کے مطالعے کرنے والے ماہرین کا ماننا ہے کہ ہاں، آج نسل پرست باتوں کو پہلے جتنا سنگین نہیں سمجھا جا رہا۔ برطانیہ کے وزیر صحت ویس سٹریٹنگ نے حال ہی میں کہا کہ صحت کے کارکن بڑھتی ہوئی نسل پرستی کا سامنا کر رہے ہیں اور یہ 1970-80 کی دہائیوں کے "گھناو¿نے نسل پرستی" جیسا لگنے لگا ہے۔ ان کے مطابق، آج "نسل پرست ہونا سماجی طور پر قابل قبول" سا محسوس ہوتا ہے۔ نفرت کے جرائم کے اعداد و شمار اور کئی رپورٹس دکھاتی ہیں کہ نسل پرستی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ کئی واقعات میں لوگ کھلے عام ایسے بیانات دے رہے ہیں جو پچھلی دہائیوں میں ممکن نہیں تھے۔
تحقیقات بتاتی ہیں کہ امیگریشن پر روک لگانے کی مانگ اکثر کسی خاص نسلی گروہ کو باہر رکھنے کی خواہش سے متاثر ہوتی ہے۔ تاریخ میں برطانیہ میں یہودی، سیاہ فام اور مشرقی یورپی کمیونٹیوں کے خلاف ایسے مہمات چل چکی ہیں۔ پہلے لوگ براہِ راست نسل پرست باتیں کرنے سے گریز کرتے تھے۔ وہ مضمون بدل کر دلیل دیتے جیسے "مقامی اور سیاہ فام کمیونٹیوں کے تعلقات خراب ہو رہے ہیں، اس لیے مہاجرین کو روکنا ضروری ہے۔" لیکن اب کئی رہنما اور ان کے حامی کھلے عام ایسے بیانات دے رہے ہیں، جن میں نسل پرستی اور شدت پسندی واضح ہے۔ برطانیہ میں گزشتہ مہینوں میں ہوئے مہاجر مخالف مظاہروں میں کھلے عام نسل پرست اور مذہبی شدت پسندی بھرے نعرے لگائے گئے۔
مساجد پر حملے، مہاجرین کی جائیدادیں جلانے جیسے واقعات اب معمول بنتے جا رہے ہیں۔ ستمبر 2025 میں برطانیہ میں اب تک کی سب سے بڑی دائیں بازو کی ریلی "یونائیٹ دا کنگڈم" نکالی گئی۔ اس پلیٹ فارم پر مقررین نے کھلے عام کہا کہ برطانیہ سے تمام مہاجرین اور غیر ملکیوں کو نکال دیا جانا چاہیے اور ملک کو ایک خالص عیسائی ریاست بنایا جانا چاہیے۔ یہ بیان بازی براہِ راست نسل پرستی ہے اور اب یہ کھلے عام کی جا رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق، یہ ماحول ظاہر کرتا ہے کہ برطانوی معاشرے میں نسل پرستی کے خلاف جو مضبوط سماجی اصول کبھی تھے وہ آج کمزور ہو تے جا رہے ہیں۔