انٹرنیشنل ڈیسک: دہلی میں واقع افغانستان کے سفارت خانے میں طالبان کے وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس کے دوران ہندوستا نی خاتون صحافیوں نے پہلی صف میں بیٹھ کر اپنی موجودگی درج کرائی۔ یہ قدم حالیہ مخالفت کے بعد خواتین کے بااختیار ہونے کی علامت بن گیا۔ پرینکا گاندھی اور راہل گاندھی نے خواتین کے حقوق کی اس جدوجہد کی حمایت کی۔
افغان سفارت خانے کا تنازع
افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کی نئی دہلی میں واقع افغان سفارت خانے میں ہوئی پریس کانفرنس میں خاتون صحافیوں کو داخلے کی اجازت نہ دینے پر شروع ہونے والا ہنگامہ آخرکار رنگ لایا۔ احتجاج اور عوامی غصے کے بعد اتوار کو ہندوستانی خاتون صحافیوں نے سفارت خانے میں منعقد متقی کی پریس کانفرنس میں پہلی صف کی نشستیں سنبھالیں، جو خواتین کے حقوق کے احترام اور پریس کی آزادی کی علامت بن گئیں۔
https://x.com/shaandelhite/status/1977374171446317335
تنازع کی شروعات
10 اکتوبر کو منعقد پریس کانفرنس میں خاتون صحافیوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ افغان سفارت خانے کے باہر کئی خاتون صحافیوں کو روک دیا گیا، جس کے بعد پورے ملک میں اس پر شدید ردعمل دیکھنے کو ملا۔ سوشل میڈیا پر اسے طالبانی سوچ قرار دیتے ہوئے لوگوں نے سوال اٹھایا کہ ہندوستان کی سرزمین پر کسی غیر ملکی نمائندے کو ایسا امتیاز برتنے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے۔
سیاسی ہلچل
اس معاملے پر کانگریس رہنما پرینکا گاندھی واڈرا نے کہا تھا کہ یہ ہندوستان کی بہادر اور قابل خاتون صحافیوں کی توہین ہے۔ وزیراعظم کو واضح کرنا چاہیے کہ کیا ہندوستان میں بھی اب طالبانی سوچ کو جگہ ملے گی؟ وہیں راہل گاندھی نے اسے طالبانی اور آر ایس ایس ذہنیت کا ملا جلا روپ قرار دیا اور کہا کہ خواتین کی آواز کو دبانے کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔ ہندوستانی خواتین کو ان کے حقوق سے کوئی محروم نہیں کر سکتا۔
https://x.com/MeghUpdates/status/1977335674861924455
طالبانی وزیر خارجہ کی وضاحت
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے بعد میں وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ خاتون صحافیوں کو باہر رکھنا جان بوجھ کر نہیں تھا، بلکہ فہرست میں کچھ تکنیکی غلطیاں تھیں۔ لیکن اس وضاحت کو ہندوستان کی صحافی تنظیموں اور خواتین کمیشن نے ناکافی اور ناقابل قبول قرار دیا۔
حکومت کا موقف
وزارت خارجہ (MEA) نے بیان جاری کر کہا کہ اس پریس کانفرنس کا انعقاد افغان سفارت خانے نے آزادانہ طور پر کیا تھا، ہندوستان حکومت کا اس میں کوئی رسمی کردار نہیں تھا۔ وزارت نے یہ بھی دوہرایا کہ ہندوستان خواتین کے مساوی حقوق اور پریس کی آزادی کا مضبوط حامی ہے۔
عزتِ نسواں کی جیت
ردعمل کے دبا ؤ میں اتوار کو سفارت خانے میں منعقد دوسری پریس کانفرنس میں خاتون صحافیوں کو نہ صرف بلایا گیا، بلکہ انہیں فرنٹ رو(پہلی قطار)میں بٹھایا گیا۔ یہ منظر پورے میڈیا کے لیے ایک علامت بن گیا کہ ہندوستان میں طالبانی سوچ نہیں چلے گی۔ یہ تنازع نہ صرف افغان سفارت خانے کی غلطی کا معاملہ تھا، بلکہ ہندوستان کی جمہوری روح اور خواتین کے بااختیار ہونے کی پہچان کا بھی نشان بن گیا۔ پرینکا گاندھی اور راہل گاندھی کی پہل نے اس مسئلے کو عوامی مفاد کے درجے پر اٹھایا اور بالآخر خاتون صحافیوں کے لیے انصاف کی راہ ہموار کی۔