انٹرنیشنل ڈیسک: پاکستان میں کم عمری کی شادی ( بال وواہ ) کو روکنے کے لیے نیا قانون نافذ کر دیا گیا ہے جس میں 18 سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادی کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ قانون کم عمری کی شادی کو جرم کے زمرے میں لاتا ہے اور مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کا بندوبست کرتا ہے۔ لیکن جیسے ہی یہ قانون نافذ ہوا ملک میں ایک بہت بڑا تنازعہ کھڑا ہو گیا اور وہ بھی اسلام کے نام پر۔ اس قانون کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی شرعی عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے، جس میں اسے اسلام اور شریعت کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔ مذہبی بنیاد پرست اسے اللہ اور قرآن کے احکامات کے خلاف قرار دے رہے ہیں اور حکومت پر مذہب مخالف پالیسیاں اپنانے کا الزام لگا رہے ہیں۔
نیا قانون
- 18 سال سے کم عمر لڑکی سے شادی کرنا جرم تصور کیا جائے گا۔
- اگر مرد بالغ ہے اور لڑکی نابالغ ہے تو مرد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
- اگر دونوں نابالغ ہیں تو والدین کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
اسلام کے خلاف بنیاد پرست تنظیموں کا دعویٰ
اسلامی تعلیمات کی تشریح کرنے والی کونسل آف اسلامی آئیڈیالوجی کا کہنا ہے کہ 18 سال سے پہلے کی شادی کو 'ریپ' قرار دینا اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ اسلام میں شادی کے لیے کم از کم عمر کی کوئی حد نہیں ہے، بلکہ بلوغت کو شادی کے لیے مناسب سمجھا گیا ہے۔
درخواست میں قرآن و حدیث کا حوالہ
شرعی عدالت میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ قرآن و حدیث میں شادی کے لیے عمر کی کوئی پابندی نہیں ہے بلکہ بالغ ہونے اور خواہش کو اہمیت دی گئی ہے۔ درخواست گزاروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ قانون لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے کیونکہ کسی کو شادی کرنے سے روکنا اسلامی نظام انصاف کے خلاف ہے۔
پاکستان ایک بار پھر تنازعات میں گھرا
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان میں مذہبی عقائد اور جدید قوانین کے درمیان ٹکرا ؤ دیکھا گیا ہو۔ حکومت کی طرف سے کم عمری کی شادی جیسے سنگین سماجی مسئلے پر اٹھایا گیا یہ قدم قابل ستائش ہے لیکن اسے مذہبی نقطہ نظر سے دیکھنے والوں کی مخالفت نے ایک بار پھر ظاہر کر دیا ہے کہ وہاں اصلاحات لانا آسان نہیں ہے۔