انٹرنیشنل ڈیسک: آسٹریلیا کے سڈنی میں واقع بونڈی بیچ میں ہونے والی شدید فائرنگ کے واقعے میں اب تک 16 افراد کی ہلاکت اور تقریبا42 افراد کے شدید زخمی ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اس حملے نے نہ صرف آسٹریلیا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی گہری تشویش پیدا کر دی ہے۔ تمام زخمیوں کا مختلف ہسپتالوں میں علاج جاری ہے اور پورے علاقے میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔
اسی دوران حملے کے ملزم نوید کے حوالے سے سوشل میڈیا پر نئے اور سنگین دعوے سامنے آئے ہیں۔ کچھ پوسٹس اور وائرل پیغامات میں دعوی کیا جا رہا ہے کہ نوید پاکستانی نژاد تھا اور اس نے اسلام آباد میں واقع ہمدرد یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی۔ ان پوسٹس میں اسے دہشت گرد قرار دیتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ اس نے یہودیوں اور عام آسٹریلوی شہریوں کو نشانہ بنایا۔
Mommy (Verena) says her jihadist son is a good boy.
She said he didn't have a firearm ... but her husband had six and they all lived together.
The Al-Murad Institute in Sydney, where Naveed Akram studied the Qu'ran needs to be shut ... methinks the courses may not be… pic.twitter.com/HZBvUChods
— TullulaBelle@TullulaX0X ✝️♒🐩🐾🐓💖 (@TullulaX0X) December 15, 2025
تاہم آسٹریلوی پولیس، نیو ساؤتھ ویلز حکومت یا کسی بھی سرکاری تفتیشی ادارے نے اب تک نہ تو حملہ آور کے پاکستانی نژاد ہونے کی تصدیق کی ہے اور نہ ہی اس کے کسی غیر ملکی یونیورسٹی یا بین الاقوامی نیٹ ورک سے تعلیمی یا دیگر تعلق کی توثیق کی ہے۔ حکام نے واضح کیا ہے کہ تفتیش ابھی جاری ہے اور کسی بھی نتیجے پر پہنچنا قبل از وقت ہوگا۔ اس سے قبل نوید کی والدہ ویرینا نے میڈیا سے گفتگو میں دعوی کیا تھا کہ اس کا بیٹا پیشے کے لحاظ سے مستری تھا اور حالیہ دنوں میں بے روزگار تھا۔ ویرینا نے کہا کہ اس کے بیٹے کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا، لیکن اس کے شوہر کے پاس چھ ہتھیار تھے اور وہ سب ایک ساتھ رہتے تھے۔ سڈنی میںواقع المراد انسٹی ٹیوٹ جہاں نوید اکرم نے قرآن کی تعلیم حاصل کی تھی، اسے بند کر دینا چاہیے، میرا خیال ہے کہ وہاں کے کورس اچھے نہیں ہوں گے۔
#BREAKING: Terrorist Naveed Akram who killed 12 innocent Australians and Jews in Sydney earlier today is a Pakistani Origin Terrorist who has studied in Hamdard University in Islamabad, Pakistan.#bondibeach
You know what to do pic.twitter.com/Ns7yYQwKQs
— Anura (अनुर ) ࿗ (@Anura_Indo) December 14, 2025
انہوں نے یہ بھی کہا کہ واقعے والے دن نوید اور اس کا والد یہ کہہ کر گھر سے نکلے تھے کہ وہ مچھلی پکڑنے جا رہے ہیں۔ بعد میں سامنے آنے والے تشدد نے پورے خاندان کو صدمے میں ڈال دیا۔ سوشل میڈیا پر یہ سوال بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ اگر ملزم پہلے سے پولیس کی نگرانی میں تھا تو اسے ہتھیاروں تک رسائی کیسے حاصل ہوئی۔ دوسری جانب پولیس نے اپیل کی ہے کہ افواہیں نہ پھیلائیں، تفتیش کو متاثر نہ کریں اور صرف سرکاری معلومات پر اعتماد کریں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے حساس معاملات میں دعوؤں، حقائق اور تفتیش کے درمیان فرق برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ غلط معلومات سماجی تناؤ اور نفرت کو مزید بڑھا سکتی ہیں۔ حکومت نے یقین دلایا ہے کہ قصورواروں کو قانون کے مطابق سخت سزا دی جائے گی، لیکن اس سے پہلے سچائی کو شواہد کی بنیاد پر سامنے لایا جائے گا۔