ڈھاکا: بنگلہ دیش نے جمعرات کی دیر رات ایک آرڈی نینس جاری کیا، جو عبوری حکومت کے سربراہ پروفیسر محمد یونس کی جانب سے تجویز کردہ سیاسی چارٹر پر ریفرنڈم کے مطابق ہے۔ اس اقدام پر فوری ردعمل دیتے ہوئے آئینی ماہرین نے اسے غیر آئینی قرار دیا ہے۔ بنگلہ دیش کے صدر محمد شہاب الدین نے ‘جولائی چارٹر عمل درآمد آرڈی نینس” پر دستخط کر دیے جسے یونس کی سربراہی والے قومی اتفاق رائے کمیشن نے تیار کیا ہے۔ یہ مسودہ کئی سیاسی جماعتوں سے تفصیلی مشاورت کے بعد تیار کیا گیا لیکن برطرف وزیراعظم شیخ حسینہ کی اب تحلیل کی جا چکی عوامی لیگ اس سے باہر رہی۔
قوم کے نام اپنے خطاب میں عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر یونس نے جمعرات کو کہا کہ اگلے سال فروری میں مجوزہ قومی انتخابات کے ساتھ ہی ریفرنڈم کرایا جائے گا تاکہ عوام سے چارٹر پر مینڈیٹ لیا جا سکے۔ اہم آئینی ماہر اور سابق قانون کے پروفیسر شاہدین ملک نے کہا، “چارٹر میں شامل کئی فیصلے موجودہ آئین کے خلاف ہیں اور چونکہ آئین اب بھی نافذ ہے تو صدر اس آرڈی نینس پر قانونی طور پر دستخط نہیں کر سکتے۔ بنگلہ دیش کے آئین میں ریفرنڈم کا کوئی انتظام نہیں ہے اور آرٹیکل 93 کے مطابق کوئی بھی آرڈی نینس آئین میں ترمیم یا منسوخی کے لیے جاری نہیں کیا جا سکتا۔
آرڈی نینس کے مطابق، اگلی پارلیمنٹ کو اپنی پہلی میٹنگ سے 180 ورکنگ ڈیز کے اندر چارٹر اور ریفرنڈم کے نتائج کے مطابق آئینی ترمیم مکمل کرنا ہو گی۔ ملک نے اسے “ناموزوں” قرار دیا۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل محمد روح الحدوث نے بھی پوچھا کہ آئین میں ریفرنڈم کا انتظام ہی نہیں ہے تو اسے کس قانونی بنیاد پر کرایا جا سکتا ہے۔ سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (BNP) نے الزام لگایا کہ یونس نے خود اپنے دستخط والے چارٹر کی خلاف ورزی کی ہے کیونکہ اس میں آئینی اصلاحاتی کونسل جیسی نئی باتیں تھوپنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ بی این پی کے رہنما صلاح الدین احمد نے کہا کہ جولائی چارٹر عمل درآمد آرڈی نینس میں کئی نئے نکات شامل کیے گئے ہیں اور کئی متفقہ نکات نکال دیے گئے ہیں اس لیے ریفرنڈم کی قانونی حیثیت مشکوک ہو گئی ہے۔