حیدرآباد کی ویٹرنری ڈاکٹر کے گینگ ریپ اور قتل کے چاروں ملزمان پر عدالت میں مقدمہ چلنے سے پہلے ان کا پولیس نے اینکاؤنٹر کر دیا۔یہ اینکاؤنٹر درست تھا یا غلط یہ ایک الگ موضوع ہے، لیکن قانونی نظام کو لے کر ملک میں مچا وبال تھم سا گیا۔ سوشل میڈیا پر سب اس اینکاؤٹنر کی تعریف کر رہے ہیں ۔
عدالتوں میں لاکھوں ریپ کے کیس زیر التوا
ریپ کے ملزمان کو جیل ہونے پر کسی بھی متاثرہ کے اہل خانہ کو کتنا سکون ملتا ہے اس کا اندازہ لگانا تو مشکل ہے لیکن ملک میں ہندوستانی آئین کی دفعہ کے تحت سزا کاٹ رہے ایک لاکھ سے زیادہ قیدیوں میں10,892 بلاتکاری ہیں۔عدالتوں میں ریپ کے لاکھوں کیس زیرالتوا ہو سکتے ہیں کیونکہ نیشنل کرائم بیورو( این سی آر بی )کا 2017 تک خواتین پر جرائم کے اعداد و شمار ساڑھے 3 لاکھ سے تجاوز کر چکے ہیں۔ستم ظریفی تو یہ ہے کہ مہنگائی، بے روزگاری، قانون اور معیشت کی بد حالی کے درمیان عام عوام ایک وقت میں ایک ہی مسئلے پر توجہ دیتی ہے۔باقی مسائل پر سیاستدان پردہ نہیں بلکہ کفن ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کس جرم میں کتنے بند
این سی آربی کے اعداد و شمار کے مطابق 2017 تک آئی پی سی کے تحت 1 لاکھ 21 ہزار 997 قیدی جیلوں میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ان میں سے سب سے زیادہ 84 فیصد (102535) کیس انسانی جسم کو نقصان پہنچانے اور قتل کے ہیں۔اس طرح کے معاملات میں صرف قتل کے مقدمات کی تعداد 68.4 فیصد یعنی 70،170 ہے۔ابھی ریپ کے معاملات کی بات کی جائے تو 10.6 فیصد 10892) )بلاتکاری جیلوں میں سزا کاٹ رہے ہیں۔جہیز ی اذیت کے معاملات میں 29.7 فیصد 5448) )سزا کاٹ رہے ہیں۔یہ اعداد و شمار 31 دسمبر 2017 تک کے ہیں۔یہاں صرف ان مقدمات کی بات ہو رہی ہے جن میں مجرموں کو سزا ہو چکی ہے۔
خواتین کے خلاف جرائم کا بڑھ رہا گراف
ملک میں خواتین کی ہر علاقے میں جہاں شرکت بڑھتی جا رہی ہے وہیں حکومتیں ان کے تئیںبڑھتے ہوئے جرائم کو لے کر سنجیدہ نہیں دکھائی پڑتی ہیں۔گزشتہ ماہ این سی آر بی کی پبلک ڈومین پر ڈالی گئی رپورٹ کے مطابق بھی ملک کی خواتین کی حیثیت کچھ اچھی نہیں ہے۔ خواتین کے تئیں جرائم کم نہیں ہو رہے ہیں بلکہ بڑھتے جا رہے ہیں۔ این سی آر بی کی تازہ رپورٹ کے مطابق سال 2017 میں 50 لاکھ 07 ہزار 44 کیس درج کئے گئے ہیں جن میں سے 3 لاکھ 59 ہزار 849 کیس خواتین کے خلاف جرائم سے متعلق ہیں۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2015 میں خواتین کے تئیں جرم کے 3 لاکھ 29 ہزار 243 کیس درج کئے گئے۔ 2016 میں یہ اعداد و شمار میں 3 لاکھ 38 ہزار 954 تک پہنچ گیا تھا۔
اعداد و شمار کے مکڑجال میں حکومت
تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن نے 2018 میں ایک سروے کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ بھارت خواتین کے لئے سب سے زیادہ خطرناک ملک ہے۔یہ اعلان کسی رپورٹ یا اعداد و شمار پر نہیں بلکہ ایک سروے پر مبنی ہے۔اس ادارے کے دعوے کو حکومت ہند نے سرے سے خارج کر دیا تھا۔وزارت بہبود خواتین واطفال نے درجہ بندی کو ایک تصور بتایا تھا،یہ محض 6 سوالات کے جواب پر مبنی ہے۔اس کے علاوہ اس سروے میں صرف 548 لوگوں کو شامل کیا گیا ہے۔رائٹرز کے مطابق یہ لوگ عورت سے متعلق معاملات کے ماہر ہیں۔