نئی دہلی:آج سے ٹھیک 54 سال پہلے، جب پاکستانی فضائیہ کے ایف 86 سیبر جیٹ اور ایف104 اسٹار فائٹرز نے ہندوستان پر پیشگی حملہ کیا تو اس کے فوراً بعد ہندوستانی فضائیہ نے سرحد پار کر کے پاکستان کے اڈوں پر حملے کیے، اسی دن واشنگٹن کے وقت کے مطابق صبح سوا دس بجے ، امریکی صدر رچرڈ نکسن اور ان کے قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر ٹیلی فون پر 1971 کی ہند۔پاک جنگ کے آغاز پر بات کر رہے تھے۔ کسنجر نے جب صدر نکسن کو بتایا کہ ”لگتا ہے مغربی پاکستان نے حملہ کر دیا کیونکہ مشرقی پاکستان میں صورتحال خراب ہو رہی ہے“ تو نکسن پھٹ پڑے اور کہا: ”پاکستان کا معاملہ دل کو بیمار کر دیتا ہے۔ ان کے ساتھ ہندوستانیوں کا یہ سلوک اور وہ بھی اس کے بعد جب کہ ہم نے انھیں (ہندوستان کی وزیراعظم اندرا گاندھی کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے) خبردار کر دیا تھا…“ یہ گفتگو وائٹ ہاو¿س میں ریکارڈ کی گئی اور دہائیوں بعد محکمہ خارجہ نے اسے تاریخی دستاویزات کے طور پر جاری کیا۔ جنگ کا باقاعدہ آغاز اس وقت ہوا جب پاکستانی فضائیہ نے آپریشن چنگیز کے نام سے ہندوستان کے گیارہ ایئر بیسز (سرینگر، امرتسر، پٹھانکوٹ وغیرہ) پر بمباری کی، لیکن ہندوستان نے پہلے ہی اپنے طیارے خفیہ مقامات پر منتقل کر دیے تھے، اس لیے زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ ساتھ ہی پاکستانی فوج نے کشمیر میں سیز فائر لائن پار کر کے ہندوستان کی طرف پیش قدمی کی۔ اس کے جواب میں ہندوستانی فضائیہ نے پاکستانی ایئر فیلڈز چکلالہ، مرید، سرگودھا، چندر، رِسالہ والا، رفیقی، مسرور اور شورکوٹ پر بھرپور حملے کیے۔
کسنجر نے نکسن کو مشورہ دیا کہ ”ہمیں فوراً اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جانا چاہیے تاکہ ہندوستان کی جوابی جنگ روکی جا سکے۔“ انہوں نے کہا: ”محکمہ خارجہ اور میں دونوں سمجھتے ہیں کہ جونہی حملوں کی تصدیق ہو، اسے کونسل میں لے جائیں۔ اگر بڑی جنگ چھڑ گئی اور ہم کونسل نہ گئے تو یہ ہماری کمزوری کا اعتراف ہو گا۔“ نکسن نے پوچھا: ”کون مخالفت کرے گا؟“
کسنجرنے کہا ”ہندوستان اور سوویت یونین… کوئی اور نہیں۔“
حقیقت میں اقوام متحدہ میں بہت سے ممالک ہندوستان کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور پاکستان کی فوج کی طرف سے مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں ہونے والی نسل کشی کی مذمت کی۔ آخر کار 14 دن کی شدید جنگ میں ہندوستان اور مکتی باہنی کے مشترکہ حملوں سے بنگلہ دیش آزاد ہوا۔
جنگ شروع ہونے سے دو دن پہلے امریکی سفیر کینتھ کیٹنگ اندرا گاندھی سے ملے اور صدر نکسن کا پیغام دیا کہ ہندوستان سرحد پر فوجیں جمع کرنا بند کر دے۔ اندرا گاندھی نے صاف جواب دیا: ”پاکستان نے سب سے پہلے فوجیں سرحد پرتعینات کی تھیں، کسی نے ان سے واپس بلانے کو نہیں کہا۔“ انہوں نے کہا کہ جنرل یحییٰ خان کے مسائل خود انکے پیدا کردہ ہیں اور ”ہم ان کے لیے آسانی پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔“ انہوں نے واضح کیا کہ ہندوستان یحییٰ خان کی غلط کاریوں کو یونہی جاری رہنے نہیں دے گا۔ جب کیٹنگ نے کہا کہ آپ کا موقف ”بہت سخت“ ہے تو اندرا گاندھی نے جواب دیا: ”اب یہ پہلے سے تھوڑا سخت ہے۔ میرے صبر کی انتہا ہو چکی۔ میں ہندوستانی قوم سے یہ کیسے کہوں کہ مزید صبر کریں؟ میں اب یہ نہیں روک سکتی۔“
جب کیٹنگ نے ہندوستان کے مبینہ حملے کا ذکر چھیڑا تو اندرا گاندھی نے بات کاٹتے ہوئے کہا: ”ہم ایسی نصیحت نہیں سن سکتے جو ہمیں کمزور کرے۔“ اسی دن کیٹنگ نے واشنگٹن کو رپورٹ بھیجی: ”ان کے موقف میں کوئی لچک نظر نہیں آتی اور غالباً یہ دھوکہ بھی نہیں۔ وہ ہندوستان کے مفادات جس طرح سمجھتی ہیں، ان سے پیچھے ہٹنے والی نہیں ہیں۔“